کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 424
{ آلْآنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ }[1] ’’ تواب ایمان لاتا ہے جبکہ تو اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور تو فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا ۔ ‘‘ خلاصہ یہ ہے کہ توبہ کی قبولیت کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ تائب ‘ توبہ کا دروازہ بند ہونے سے قبل توبہ کرے اور اس کی ایک صورت تو یہی ہے کہ اس کی موت اس کی آنکھوں کے سامنے ہو او راس کی روح اس کے حلق میں اٹکی ہوئی ہو اور دوسری صورت یہ ہے کہ سورج مغرب سے طلوع ہو ، چنانچہ قیامت سے پہلے جب سورج مغرب سے طلوع ہو گا تو اس کے بعد کسی کی توبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہ ہوگی ۔ ارشاد نبوی ہے: (( مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَّغْرِبِہَا تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ[2])) ’’ جو شخص مغرب سے سورج کے طلوع ہونے سے پہلے توبہ کرے گا اللہ اس کی توبہ قبول کر لے گا ۔ ‘‘ 6۔ حقوق العباد کی ادائیگی گناہوں کا تعلق اگر بندوں کے حقوق سے ہو تو ان کی معافی کیلئے شرط یہ ہے کہ انھیں ادا کیا جائے یا اصحاب الحقوق سے انھیں معاف کروا لیا جائے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو توبۂ صادقہ کی توفیق دے اور ہمارے گناہ معاف فرمائے ۔ دوسرا خطبہ استغفار اور سچی توبہ کے فوائد بہت زیادہ ہیں۔ ہم ان میں سے چند فوائد اختصار کے ساتھ عرض کرتے ہیں : 1۔ توبہ واستغفار سے گناہوں کے داغ دھبے دھل جاتے ہیں اور انسان گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے ۔ارشاد نبوی ہے : (( إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ کَانَتْ نُکْتَۃً سَوْدَائَ فِی قَلْبِہٖ،فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِلَ قَلْبُہُ،وَإِنْ زَادَ زَادَتْ حَتّٰی یَعْلُوَ قَلْبَہُ،فَذَلِکَ الرَّیْنُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰه عَزَّ وَجَلَّ فِی الْقُرْآنِ:{کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ}[3])) ’’مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے ۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیتا ہے ، اس گناہ کو
[1] یونس10:91-90 [2] صحیح مسلم:2703 [3] سنن الترمذی:3334۔حسن صحیح ،سنن ابن ماجۃ :4244۔حسنہ الألبانی