کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 421
یا ایک شخص نے بنک یا کسی اور مالیاتی ادارے میں پیسے محدود منافع پر رکھے ہوئے ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ سودی لین دین پر اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگتا ہو ! یا ایک آدمی بے نماز ہو اور ترکِ نماز پر اصرار کرتے ہوئے وہ اپنے اس گناہ پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت بھی طلب کرتا ہو ۔۔۔۔۔ تو ایسے لوگوں کی توبہ نا قابل قبول ہے کیونکہ یہ تو گویا اللہ تعالیٰ کے ساتھ مذاق ہے کہ زیان سے تو معافی مانگ رہے ہیں اور عمل سے انہی گناہوں کا ارتکاب کر رہے ہیں جن پر وہ معافی کے طلبگار ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( اَلْمُسْتَغْفِرُ مِنَ الذَّنْبِ وَہُوَ مُقِیْمٌ عَلَیْہِ کَالْمُسْتَہْزِیِٔ بِرَبِّہٖ [1])) ’’ گناہ پر قائم رہتے ہوئے اس سے معافی مانگنے والا شخص ایسے ہے جیسے ایک آدمی اپنے رب کے ساتھ مذاق کر رہا ہو ۔ ‘‘ یہ حدیث اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے لیکن معنی کے اعتبار سے صحیح ہے ۔ اس کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے:{وَالَّذِیْنَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَۃً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِہِمْ وَمَن یَّغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللّٰہُ وَلَمْ یُصِرُّوا عَلَی مَا فَعَلُوا وَہُمْ یَعْلَمُونَ}[2] ’’ جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا وہ کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فورا اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں پر معافی طلب کرتے ہیں اور فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے ؟ اور وہ جان بوجھ کر اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے ۔ ‘‘ یعنی اگر ان سے کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے ‘ خواہ صغیرہ ہو یا کبیرہ ‘ تو وہ بلا تاخیر اللہ تعالیٰ اور اس کے عذاب کو یاد کرکے اس سے مغفرت طلب کرلیتے ہیں کیونکہ اس کے سوا اور کوئی نہیں جس سے مغفرت طلب کی جائے اور وہ جان بوجھ کر اپنے گناہوں پر اڑے نہیں رہتے بلکہ انہیں ترک کرکے اپنی اصلاح شروع کردیتے ہیں ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی جزاء کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : { أُولٰـئِکَ جَزَآؤُہُم مَّغْفِرَۃٌ مِّن رَّبِّہِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِیْنَ} [3] ’’ یہی لوگ ہیں جن کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت اور وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور عمل کرنے والوں کا اجر کیا ہی اچھا ہے ۔ ‘‘
[1] الضعیفۃ :616 [2] آل عمران3: 135 [3] آل عمران3: 136