کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 420
پھر اسے نیکیوں کا نامۂ اعمال دے دیا جائے گا ۔اور رہے کفار اور منافقین تو ساری کائنات کے سامنے پکار کر کہا جائے گا : یہ ہیں وہ لوگ جنھوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا تھا ۔ ‘‘[1] شروطِ قبولیت ِتوبہ عزیزان گرامی ! اب یہ بھی جان لیجئے کہ سچی توبہ کی کچھ شروط ہیں جن کے بغیر توبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں ، اور وہ کچھ یوں ہیں : 1۔ اخلاص ، جو تمام عبادات کی قبولیت کیلئے پہلی شرط ہے ، چنانچہ تائب کو محض اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے توبہ کرنی چاہئے ، کسی دنیاوی مفاد یا ذاتی مصلحت کے حصول کیلئے نہیں ، کیونکہ اگر وہ دنیاوی اغراض ومقاصد کیلئے توبہ کرے گا تو ان کے پورا ہوتے ہی وہ اللہ تعالیٰ کے دین سے اعراض کر لے گا اور یہ سچی توبہ نہیں بلکہ جھوٹی توبہ ہے ۔ 2۔ ندامت وشرمندگی ، یعنی تائب اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان پر اللہ تعالیٰ کے سامنے ندامت وشرمندگی کا اظہا رکرے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے محبت کرتا ہے جو اعترافِ گناہ کے بعد اس کے سامنے عاجزی وانکساری کے ساتھ شرمندہ ہو او راس سے معافی طلب کرے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جب تہمت لگائی گئی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا تھا : (( یَا عَائِشَۃُ،فَإِنَّہُ قَدْ بَلَغَنِی عَنْکِ کَذَا وَکَذَا،فَإِنْ کُنْتِ بَرِیْئَۃً فَسَیُبَرِّئُکِ اللّٰہُ،وَإِنْ کُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِی اللّٰہَ وَتُوْبِی إِلَیْہِ،فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبٍ ثُمَّ تَابَ،تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ)) [2] ’’ اے عائشہ ! مجھے تمھارے بارے میں یہ یہ بات پہنچی ہے ، پس اگر تم بے گناہ ہو تو اللہ تعالیٰ تمھاری بے گناہی ثابت کردے گا ۔اور اگر تم نے گناہ کر ہی لیا ہے تو تم اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو اور اس کی جناب میں توبہ کر لو کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اعتراف کرلیتا ہے ، پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے ۔ ‘‘ 3۔ ترک معاصی ، یعنی تائب معاصی کو ترک کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی کا طلبگا رہو ، نہ یہ کہ وہ معاصی بھی کرتا رہے اور ساتھ ساتھ معافی بھی مانگتا رہے ، مثلا ایک شخص اپنے سامنے جامِ شراب رکھ لے اور ایک ایک گھونٹ کرکے اس سے شراب نوشی بھی کرتا رہے اور اس کے ساتھ ساتھ ’’ أستغفر اﷲ‘‘ کا ورد بھی جاری رکھے،
[1] صحیح البخاری:2441، صحیح مسلم :2768 [2] صحیح مسلم:2770