کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 419
ہے اور اس پر مؤاخذہ بھی کر سکتا ہے ۔ ‘‘
اس کے بعداس نے ایک اور گناہ کیا ، پھر توبہ کرتے ہوئے کہا :
(أَیْ رَبِّ ، اغْفِرْ لِی ذَنْبِی) ’’ اے میرے رب ! میرا گناہ معاف فرما ۔ ‘‘
تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے کہا :
(أَذْنَبَ عَبْدِیْ ذَنْبًا ، فَعَلِمَ أَنَّ لَہُ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَأْخُذُ بِالذَّنْبِ )
’’ میرے بندے نے گناہ کا ارتکاب کیا ،پھر اسے معلوم ہوا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ معاف بھی کر سکتا ہے اور اس پر مؤاخذہ بھی کر سکتا ہے ۔ ‘‘
پھر اس نے ایک اور گناہ کیا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے ہوئے کہا :
( أَیْ رَبِّ ، اغْفِرْ لِی ذَنْبِی ) ’’ اے میرے رب ! میرا گناہ معاف فرما ۔ ‘‘
تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے کہا :( أَذْنَبَ عَبْدِیْ ذَنْبًا،فَعَلِمَ أَنَّ لَہُ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَأْخُذُ بِالذَّنْبِ،اِعْمَلْ مَا شِئْتَ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکَ )
’’ میرے بندے نے گناہ کا ارتکاب کیا ،پھر اسے معلوم ہوا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ معاف بھی کر سکتا ہے اور اس پر مؤاخذہ بھی کر سکتا ہے، جاؤ اب جو چاہو کرو میں نے تمھیں معاف کردیا ۔ ‘‘[1]
اس سے مقصود یہ ہے کہ اگر تم بار بار گناہ کرتے رہو اور ہر مرتبہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہو تو اللہ تعالیٰ تمھیں معاف کرتا رہے گا ، گویا اللہ تعالیٰ کی معافی توبہ اور استغفار سے مشروط ہے ۔ لہٰذا مسلمان کو ہر وقت اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہنا چاہئے تاکہ جب اس کا خاتمہ ہو تواس حالت میں ہو کہ اس کے رب نے اسے معاف کردیا ہو ۔
2۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ اللہ تعالیٰ مومن کو روزِ قیامت اپنے قریب کرے گا یہاں تک کہ اس پر پردہ ڈال دے گا ، پھر اس سے اس کے گناہوں کا اعتراف کروائے گا اور کہے گا : کیا تمھیں معلوم ہے کہ تم نے فلاں گناہ کیا تھا ؟ وہ کہے گا : ہاں میرے رب ! مجھے معلوم ہے ، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا :
(فَإِنِّی قَدْ سَتَرْتُہَا عَلَیْکَ فِی الدُّنْیَا وَإِنِّی أَغْفِرُ ہَا لَکَ الْیَوْم)
’’ میں نے دنیا میں بھی تم پر پردہ پوشی کی تھی اور آج بھی تمھیں معاف کررہا ہوں ۔ ‘‘
[1] صحیح البخاری :7507 ،صحیح مسلم :2758