کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 417
کو حکم دیاکہ تم سمٹ جاؤ ۔ ‘‘
غور کیجئے کہ یہ آدمی سو افراد کا قاتل تھا اور اس نے کبھی خیر کا ایک عمل بھی نہ کیا تھا لیکن چونکہ سچی توبہ کے ارادے سے نکلا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی نیت کے مطابق اس کی توبہ قبول کر لی اور اس کی روح کو رحمت کے فرشتوں کے سپرد کردیا ۔
نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ محض توبۂ صادقہ کی نیت کرنے پر ہی اپنے بندے کو معاف کردیتا ہے بلکہ اس کا بندہ جب ایک طرف اپنے گناہوں کو دیکھے اور دوسری طرف اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف پیدا ہو جائے تو وہ محض اسی بات پر ہی اسے معاف کردیتا ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ ایک آدمی نے بے انتہاگناہ کئے اور کبھی ایک نیک عمل بھی نہ کیا تھا ، جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا : میں جب مر جاؤں تو مجھے جلا دینا اور میری راکھ لے کر آدھی خشکی میں اڑا دینا اور آدھی سمندر میں پھینک دینا ۔ پس اللہ کی قسم ! اگر میرے رب کے پاس قدرت ہوئی تو وہ مجھے ایسا عذاب دے گا جو اس نے کبھی کسی کو نہ دیا ہو گا ۔
چنانچہ اس کے بیٹوں نے ایسا ہی کیا ۔
پھر اللہ تعالیٰ نے خشک زمین کو حکم دیا کہ وہ اس کی راکھ کو ایک جگہ پر جمع کردے اور اسی طرح سمندر کو بھی یہی حکم دیا کہ وہ اس کی راکھ کو جمع کردے ، بعد ازاں اس نے اسے زندہ کرکے اس سے پوچھا :(لِمَ فَعَلْتَ ہَذَا؟) ’’ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ ‘‘
اس نے کہا : (مِنْ خَشْیَتِکَ یَا رَبِّ وَأَنْتَ أَعْلَمُ) ’’ اے میرے رب ! محض تیرے ڈر کی وجہ سے اور تو اس بات کو بخوبی جانتا ہے ۔ ‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا ۔ ‘‘[1]
اللہ تعالیٰ اس قدر غفور رحیم ہے کہ بظاہر چھوٹی چھوٹی نیکیوں پر ہی اپنے بندوں کو معاف کردیتا ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(بَیْنَمَا رَجُلٌ یَمْشِی بِطَرِیْقٍ وَجَدَ غُصْنَ شَوْکٍ عَلَی الطَّرِیْقِ فَأَخَّرَہُ، فَشَکَرَ اللّٰہُ لَہُ فَغَفَرَ لَہُ) [2]
[1] صحیح البخاری:7506 ، صحیح مسلم : 2755
[2] صحیح البخاری :652، صحیح مسلم :1914