کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 416
’’ تم سے پہلی امتوں میں ایک شخص نے ننانوے افراد کو قتل کردیا تھا ، پھر اس نے دنیا میں سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھ گچھ کی تو ایک پادری کی طرف اس کی راہنمائی کی گئی ، چنانچہ وہ اس کے پاس آیا اور اسے آگاہ کیا کہ وہ ننانوے افراد کا قاتل ہے تو کیا اس کی توبہ کی کوئی صورت ہے ؟
اس نے کہا : نہیں ۔
تو اس نے اسے بھی قتل کر ڈالا اورسو کی گنتی پوری کردی ۔
پھر اس نے لوگوں سے دنیا کے کسی اور بڑے عالم کے بارے میں پوچھا تو اسے ایک عالم کے پاس بھیجا گیا۔اس نے اسے بتایا کہ وہ سو افراد کو قتل کر چکا ہے تو کیا اس کی توبہ کی کوئی شکل ہے ؟
عالم نے کہا : ہاں ، توبہ اور تمھارے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے ! تم ایسا کرو کہ فلاں علاقے میں چلے جاؤ ، وہاں لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ، تم بھی ان کے ساتھ مل کر اللہ کی عبادت کرتے رہو اور دیکھنا اپنے علاقے کی طرف مت لوٹنا کیونکہ وہاں برے لوگ رہتے ہیں ۔
چنانچہ وہ چل پڑا یہاں تک کہ جب درمیان میں پہنچا تو اس کو موت آگئی ، اب اس کے بارے میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا ۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا : یہ دلی طور پر توبہ کرنے کیلئے جا رہا تھا اور اللہ کی طرف متوجہ تھا ۔ عذاب کے فرشتوں نے کہا : اِس نے تو کبھی خیر کا کوئی کام کیا ہی نہ تھا۔
وہ بحث وتکرار کررہے تھے کہ ایک اور فرشتہ آدمی کی شکل میں آ پہنچا ۔ چنانچہ انھوں نے اسے اپنے درمیان فیصل تسلیم کر لیا ۔اُس نے کہا :
(قِیْسُوْا مَا بَیْنَ الْأرْضَیْنِ : فَإِلٰی أَیَّتِہِمَا کَانَ أَدْنٰی فَہُوَ لَہُ)
’’ تم دونوں مسافتوں کو ناپ لو ۔ ( جو اس نے طے کر لی تھی اور جو ابھی طے کرنا تھی ) پھر جس کے زیادہ قریب ہو اسی کے مطابق اس کے انجام کا فیصلہ کیا جائے ۔ ‘‘
لہٰذا انھوں نے جب دونوں مسافتوں کو ناپا تو وہ اُس مسافت کے زیادہ قریب تھا جو اس نے ابھی طے کرنا تھی ۔ اس لئے اس کی روح کو رحمت کے فرشتے لے گئے ۔ ‘‘[1]
اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ
(فَأَوْحَی اللّٰہُ إِلٰی ہَذِہٖ : أَنْ تَبَاعَدِیْ،وَإِلٰی ہَذِہٖ : أَنْ تَقَرَّبِی)
’’ اللہ تعالیٰ نے اُس زمین کو حکم دیاجسے وہ طے کر چکا تھا کہ تم بڑھ جاؤ ، اور جسے اس نے ابھی طے کرنا تھا اس
[1] صحیح البخاری:3470،صحیح مسلم :2766