کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 41
مقدمہ
اس سے مراد خطبہ کا ابتدائی حصہ ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور موضوع کے تعارف پر مشمل ہو۔
عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰه عنہ عن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم قال: (( کُلُّ خُطْبَۃٍ لَیْسَ فِیْہَا تَشَہُّدٌ فَہِیَ کَالْیَدِ الْجَذْمَائِ[1]))
’’جس خطبہ میں شہادتین کا ذکر نہ ہو وہ کوڑھ زدہ(ناکارہ)ہاتھ کی طرح ہے۔‘‘
اور ابن المقنع کہتے ہیں: ’’ ولیکن فی صدر کلامک دلیل علی حاجتک‘‘[2]
علامہ جاحظ نے (البیان والتبیین)میں لکھاہے: قد کان خطباء السلف واہل البیان من التابعین بإحسان یسمون الخطبۃ التی لم تبتدیٔ بالتحمید وتستفتح بالتمجید (البتراء)ویسمون التی لم توشح بالقرآن وتزین بالصلاۃ علی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم (الشوہاء) [3]
’’خطباء سلف اور تابعین کرام رحمہ اللہ ایسے خطبہ کو جس کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء سے نہ ہو (بتراء)یعنی دم بریدہ اور ایسا خطبہ جو آیات قرآنی سے آراستہ اور درود پاک سے مزین نہ ہوتا اسے (شوہاء) یعنی بدنما قرار دیا کرتے تھے۔‘‘
جیسا کہ حجاج بن یوسف کا خطبہ بتراء مشہور ہے۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لم یکن یخطب خطبۃ صلي اللّٰه عليه وسلم إلا افتتحہا بحمد اللّٰه ویتشہد فیہا بکلمتی الشہادۃ ویذکر فیہا نفسہ باسمہ ال7علم۔[4]
’’نبی اکرم ہمیشہ حمد وثناسے خطبہ شروع فرماتے اور اس میں شہادتین کا ذکر فرماتے اور ان میں اپنا اسم گرامی ’’محمد‘‘ ذکر کیاکرتے تھے۔‘‘
حمد وثناء اور شہادتین کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ’’أما بعد‘‘ بعض مفسرین نے’’ أما بعد‘‘ کو فصل الخطاب کی تفسیر قرار دیا ہے۔
نواب صدیق حسن خان فرماتے ہیں: کان النبی صلي اللّٰه عليه وسلم یلازمہا یعنی لفظۃ (اما بعد ) فی جمیع خطبہ وذلک بعد الحمد والثناء والتشہد ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر خطبے میں حمد وثناء اور شہادتین کے
[1] سنن أبی داؤد:4841وسنن ترمذی :1106
[2] أنیس الخطباء ص: 142
[3] البیان والتبیین
[4] زاد المعاد:182/1