کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 409
کہ اے ہمارے رب ! ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے ، یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے ۔ ‘‘
اس آیت ِکریمہ میں اللہ تعالیٰ نے سچی توبہ کے چار فوائد ذکر فرمائے ہیں:پہلا گناہوں کی معافی،دوسرا ان جنتوں میں داخلہ جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ، تیسرا روزِ قیامت کی رسوائی سے تحفظ اور چوتھا اُس روز ان کا نور جو ان کے آگے اور دائیں دوڑ رہا ہو گا۔
ان تمام آیات سے معلوم ہوا کہ سارے مومنین اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اس سے معافی طلب کریں ۔
اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کی تعریف کرتا ہے جو اُس سے مغفرت طلب کرتے ہیں ۔
ارشاد باری ہے :{الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.الصَّابِرِیْنَ وَالصَّادِقِیْنَ وَالْقَانِتِیْنَ وَالْمُنفِقِیْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالأَسْحَارِ}[1]
’’ جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہم ایمان لا چکے ، اس لئے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا ۔ جو صبر کرنے والے ، سچ بولنے والے ، فرمانبرداری کرنے والے، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے اور پچھلی رات کو بخشش مانگنے والے ہیں ۔ ‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے :(( یَا أَیُّہَا النَّاسُ تُوْبُوا إِلٰی رَبِّکُمْ،فَوَاللّٰہِ إِنِّی لَأتُوبُ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فِی الْیَومِ مِائَۃَ مَرَّۃٍ [2]))
’’ اے لوگو ! تم اپنے رب کی طرف توبہ کرتے رہا کرو ۔ اللہ کی قسم ! میں ایک دن میں سو مرتبہ اللہ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں ۔ ‘‘
جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن میں سو مرتبہ توبہ کرتے حالانکہ آپ امام الانبیاء ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو اور زیادہ توبہ کا اہتمام کرنا چاہئے ۔
توبہ کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کا شیوہ ہے
جی ہاں ! توبہ کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کا شیوہ ہے ، چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی زوجہ حضرت حواء کو جب شیطان نے بہکایا اور وہ دونوں اس درخت کو چکھ بیٹھے جس کے قریب جانے سے انھیں منع کیا گیا تھا تو انھوں نے اعترافِ خطا کے ساتھ یوں توبہ کی:{رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ
[1] آل عمران 3:17-16
[2] أحمد:17880، صحیح مسلم:2702