کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 407
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اچھا وہ تم ہو ؟ اس نے کہا : جی ہاں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ ابھی نہیں ، یہاں تک کہ تم بچے کو جنم دو ۔ ‘‘
حضرت بریدہ کہتے ہیں : ایک انصاری صحابی نے اُس خاتون کی کفالت کی یہاں تک کہ اس نے بچہ جنم دے دیا۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو اطلاع دی کہ اس خاتون نے بچہ جنم دے دیا ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ اسے ہم ابھی رجم نہیں کرتے کہ اس کے بچے کو اس طرح چھوڑ دیں اور اسے دودھ پلانے والا کوئی نہ ہو ۔‘‘
تو ایک انصاری نے کہا : اے اللہ کے نبی ! اس کی رضاعت میرے ذمے ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم صادر کردیا ۔
اور ایک روایت میں ہے کہ بچہ جنم دینے کے فورا بعد وہ خاتون آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ، اس نے اپنے بچے کو کپڑے کے ایک ٹکڑے میں لپیٹا ہوا تھا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جاؤ اسے دودھ پلاؤ یہاں تک کہ یہ دودھ پینا چھوڑ دے ۔‘‘
چنانچہ وہ عورت چلی گئی ، پھر کچھ عرصہ بعد واپس لوٹی تو اس کے بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا ، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ! اس بچے نے دودھ چھوڑ دیا ہے اور اب کھانا کھانے کے قابل ہو گیا ہے ۔
تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو ایک مسلمان کے سپرد کردیا اور خاتون کے بارے میں حکم صادر فرمایا کہ اس کے سینے تک کھدائی کرکے اسے رجم کردیا جائے ۔ چنانچہ لوگوں نے اسے رجم کیا ۔ اسی دوران حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ آئے ، ایک پتھر اٹھایا اور اس کے سر پہ دے مارا جس سے اس کے خون کے کچھ چھینٹے ان کے چہرے پر بھی آلگے ۔ انھوں نے اسے برا بھلا کہا جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( مَہْلًا یَا خَالِدُ،فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَۃً لَوْ تَابَہَا صَاحِبُ مَکْسٍ لَغُفِرَ لَہُ)) [1]
’’ خالد ! ٹھہر جاؤ ، اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اِس نے ایسی توبہ کی ہے کہ ایک ٹیکس لینے والا ظالم بھی ایسی توبہ کرتا تو اسے بھی معاف کردیا جاتا ۔ ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور اسے دفن کردیا گیا ۔
ان تینوں واقعات سے ثابت ہوا کہ اِس امت کے اولیں دور میں ’ جو کہ سب سے بہتر دور تھا ‘ اگر کسی مسلمان سے کوئی بڑا گناہ سرزد ہو جاتا تو وہ اپنے اوپر اس کے شدید بوجھ کو محسوس کرتا اور اس سے اپنے آپ کو
[1] صحیح مسلم:1695