کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 40
اِصطلاحی تعریف ’’الخطابۃ فن من فنون الکلام یقصد بہ التاثیر فی الجمہور عن طریق السمع والبصر معا ‘‘[1] ’’خطابت فنون کلام کی ایک قسم ہے جس کے ذریعے سماعت اور بصارت کے راستے عوام الناس کو متاثر کرنا مقصود ہوتا ہے۔‘‘ خطابت کے ارکان خطابت کے بنیادی طور پر تین ارکان ہیں:1۔خطبہ 2۔خطیب 3۔جمہور (عوام) خطبہ بروزن فعلۃ باب نصر یعنی خطب یخطب خطبۃ مصدر ہے جو مفعول کے معنی میں مستعمل ہے اور اس سے مراد’’ الکلام الذی یتکلم بہ الخطیب‘‘یعنی خطیب کی زبان سے ادا ہونے والے کلمات یا تقریر ہے۔اور عرب طرحدار اور قادر الکلام آدمی کو رجل خطیب أی حسن الخطبۃ کہتے ہیں۔[2] جبکہ بعض علماء لغت کے نزدیک لفظ خطبۃ (الخطب وہو الامر العظیم )یعنی اہم واقعہ یا حادثہ سے ماخوذ ہے۔کیونکہ عرب ایسے ہی مواقع پر عوام الناس کو خطاب کرتے تھے جس سے ان کو صورت حال سے مطلع کرنا یا اپنا پروگرام پیش کرنا مقصود ہوتا تھا ۔ لہذا ایسے مواقع پر کئے جانے والے خطاب کو موقعہ کی مناسبت سے خطبہ کہا جاتاتھا۔[3] اصطلاحی تعریف ’’ الخطبۃ ہی کلام منثور یلقی علی جمع من الناس‘‘[4] ’’وہ نثری کلام جس کے ذریعے لوگوں کے اجتماع سے خطاب کیا جائے،خطبہ کہلاتا ہے۔‘‘ خطبہ کے اجزاء: خطبہ تین اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ 1۔مقدمہ 2۔موضوع 3۔خاتمہ
[1] الخطابۃ فی الاسلام للدکتور مصلح بیومی [2] القاموس المحیط:مادہ خطب:65/1 [3] حلیۃ الفقہاء لابن فارس،ص 87 [4] معجم لغۃ الفقھاء ص:175