کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 397
پھٹ رہا ہے اور یہ مثالیں ہم لوگوں کیلئے اس لئے بیان کرتے ہیں کہ وہ غور وفکر کریں ۔ ‘‘ لیکن لگتا ہے کہ ہمارے دل پتھر سے بھی سخت ہو گئے ہیں کہ ان پر رقت طاری نہیں ہوتی ، تلاوت کرنے یا سننے کے بعد ان میں اللہ کے ذکر کی طرف اور زیادہ رغبت پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہی ہم پر قرآن مجید کی تلاوت کا کوئی اثر ہوتا ہے کہ کئی کئی ختم ہو جاتے ہیں مگر ایمان میں اضافہ نہیں ہوتا ۔ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں مگر اس کی مقرر کردہ حدود پر ہم نہیں رکتے بلکہ ان سے تجاوز کر جاتے ہیں ۔ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں مگر اُس میں بیان کردہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہیں کرتے ۔قرآن کے الفاظ کو پڑھتے ہیں مگر ان میں اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کو حرام قرار دیا ہے ہم ان سے اجتناب نہیں کرتے ۔ قرآن مجید میں مختلف قوموں کے قصے پڑھتے ہیں مگر ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے ! جبکہ قرآن مجید کی تاثیر اِس قدر شدید ہے کہ جو لوگ اِس کے دشمن تھے وہ بھی اِس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ جیسا کہ کئی صحابۂ کرام کے واقعات ہیں جو قبولِ اسلام سے پہلے اسلام کے سخت دشمن تھے لیکن جب قرآن مجید کی تلاوت سنی تو ان کے دل نرم ہو گئے اور انھوں نے اسلام قبول کر لیا ۔مثلا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا وقعہ ہے کہ جو اسلام کے بہت بڑے دشمن تھے حتی کہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادے سے نکلے تھے کہ راستے میں نعیم بن عبد اللہ سے ملاقات ہو گئی ۔ انھوں نے کہا : عمر ! آج کہاں جا رہے ہو ؟ جواب دیا کہ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کرنے جا رہا ہوں۔ انھوںنے کہا : تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرکے بنوہاشم اور بنو زہرۃ سے بچ جاؤ گے ؟ جواب دیا کہ شاید تم بھی بے دین ہو گئے ہو ؟انھوں نے کہا : میں تمھیں اِس سے بھی زیادہ تعجب والی بات نہ بتلاؤں ؟ تمھاری بہن اور تمھارے بہنوئی بھی بے دین ہو چکے ہیں اور تمھارے دین کو چھوڑ چکے ہیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ سیدھے ان کے گھر گئے جہاں حضرت خباب رضی اللہ عنہ ان دونوں کو سورۃ طہ پڑھا رہے تھے ۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ پہلے اپنے بہنوئی کو مارا ، پھر اپنی بہن کو بھی زخمی کیا ۔ اِس کے بعد شرمندہ ہوئے اور کہا : یہ جو تم پڑھ رہے تھے مجھے دو تاکہ میں بھی پڑھوں ۔ بہن نے کہا : تم نا پاک ہو پہلے غسل کرو ۔ انھوں نے غسل کیا تو صحیفہ ان کے ہاتھ میں دے دیا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے سورۃ طہ کو پڑھنا شروع کیا تو ابھی اس کی ابتدائی آیات ہی پڑھی تھیں کہ کہنے لگے : (مَا أَحْسَنَ ہَذَا الْکَلَامُ وَأَکْرَمَہُ !) ’’ یہ کتنا اچھا اور کتنا معزز کلام ہے ! ‘‘ پھر حضرت محمد رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا ۔ [1] یہ ہے قرآن مجید کی تاثیر ۔
[1] الرحیق المختوم،ص 103-102