کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 393
ابن حضیر ! تمھیں اپنی قراء ت جاری رکھنی چاہئے تھی ! ‘‘
میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے اپنے بیٹے پر ترس آ رہا تھا اس لئے میں نے سلام پھیر دیا ، اس کے بعد میں نے ایک چھتری نما چیز دیکھی جس میں چراغ چمک رہے تھے ، وہ اوپر کو چلی گئی اور میری نظروں سے غائب ہو گئی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( تِلْکَ الْمَلَائِکَۃُ دَنَتْ لِصَوْتِکَ،وَلَوْ قَرَأْتَ لَأَصْبَحْتَ یَنْظُرُ النَّاسُ إِلَیْہَا لَاتَتَوَارٰی مِنْہُمْ )) [1]
’’ یہ فرشتے تھے جو تمھاری آواز کے قریب آ گئے تھے اور اگر تم قراء ت جاری رکھتے تو صبح کے وقت لوگ بھی اسے دیکھ لیتے اور وہ ان سے نہ چھپ سکتے ۔ ‘‘
یہ تھے قرآن مجید کے بعض فضائل ۔ اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس عظیم کتاب کو کیوں نازل کیا ؟
قرآن مجیدکو کیوں نازل کیا گیا ؟
1۔اِس لئے کہ اس پر ایمان لانے والے اِس کی اُس طرح تلاوت کریں جیسا کہ اسکی تلاوت کا حق ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:{اَلَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَتْلُونَہُ حَقَّ تِلاَوَتِہِ أُوْلَـئِکَ یُؤْمِنُونَ بِہِ وَمَن یَّکْفُرْ بِہِ فَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ}[2]
’’ وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے ۔یہی لوگ اِس پر ایمان رکھنے والے ہیں اور جو شخص اس سے انکار کرے گا تو یقینا ایسے ہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں ۔‘‘
حقِ تلاوت یہ ہے کہ قرآن مجید کو اُس طرح پڑھا جائے جس طرح یہ آسمان سے نازل ہوا ، جس طرح حضرت جبریل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا ، پھر جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو سکھلایا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:{وَقُرْآنًا فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَأَہُ عَلَی النَّاسِ عَلَی مُکْثٍ وَنَزَّلْنَاہُ تَنزِیْلاً}[3]
’’ اور قرآن کو ہم نے اجزاء میں نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو آہستہ آہستہ پڑھ کر سنائیں اور ہم نے اسے بتدریج اتارا ہے ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا : {وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً } [4]
[1] صحیح البخاری:5018،صحیح مسلم :796
[2] البقرۃ2:121
[3] الإسراء17 :106
[4] المزمل73:5