کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 392
’’ صرف دو آدمی ہی قابلِ رشک ہیں ۔ ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا (اسے حفظ کرنے کی توفیق دی) اور وہ اس کے ساتھ دن اور رات کے اوقات میں قیام کرتا ہے اور دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا اور وہ اسے دن اور رات کے اوقات میں خرچ کرتا ہے۔‘‘ قراء تِ قرآن کے دوران رحمت ِ باری تعالیٰ کا نزول ہوتا ہے حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص سورۃ الکہف کی تلاوت کر رہا تھا ، اس کے پاس اس کا گھوڑا دو رسیوں کے ساتھ بندھا ہوا تھا ، اچانک ایک بادل آیا اور اس شخص کے اوپر چھا گیا ۔ پھر وہ گھومنے اور اس کے قریب ہونے لگا جس سے اس کا گھوڑا ڈر کے مارے اچھلنے لگا ۔ جب صبح ہوئی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنا یہ واقعہ ذکر کیا ۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( تِلْکَ السَّکِیْنَۃُ تَنَزَّلَتْ لِلْقُرْآنِ [1])) ’’ یہ باری تعالیٰ کی رحمت تھی جو قرآن کیلئے نازل ہوئی تھی ۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ نے (السکینۃ) کے معنی کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ اس میں کئی اقوال ہیں ، سب سے بہتر یہ ہے کہ اس سے مراہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ وہ چیز ہے جس میں اطمینان ، رحمت اور فرشتے ہوتے ہیں ۔یعنی قرآن مجید کی تلاوت کے وقت فرشتے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں جس سے تلاو ت کرنے والے کو ایک عجیب سی راحت محسوس ہوتی ہے ۔ اور حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رات کو ( نماز میں )سورۃ البقرۃ پڑھ رہا تھا اور میرا گھوڑا قریب ہی بندھا ہوا تھا ، اچانک گھوڑا بدکاتو میں خاموش ہو گیا ۔ جب میں خاموش ہوا تو وہ بھی پر سکون ہو گیا ۔ میں نے پھر قراء ت شروع کی تو وہ پھر بدکنے لگا ۔ میں خاموش ہوا تو وہ بھی ٹھہر گیا ۔میں نے پھر قراء ت شروع کی تو وہ ایک بار پھر بدکا ۔ اُدھر میرا بیٹا ’یحییٰ ‘ بھی تھا ،مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ اسے کچل نہ دے ۔ چنانچہ میں سلام پھیر کر اس کے پاس آیا اور اسے اس سے دور کردیا ۔ پھر میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چھتری سی ہے اور اس میں چراغ سے چمک رہے ہیں ۔ پھر یہ چھتری نما چیز آسمان کی طرف چلی گئی حتی کہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئی ۔ صبح ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا پورا واقعہ سنایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اے
[1] صحیح البخاری:5011،صحیح مسلم :795