کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 390
حافظ ِ قرآن کی فضیلت
قرآن مجید ایسی عظیم کتاب ہے کہ اِس کو حفظ کرنے والے اور اس پر عمل کرنے والے شخص کی بھی بڑی فضیلت ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( یُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ : اِقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ کَمَا کُنْتَ تُرَتِّلُ فِی الدُّنْیَا ، فَإِنَّ مَنْزِلَتَکَ عِنْدَ آخِرِ آیَۃٍ تَقْرَؤُہَا[1]))
’’ صاحبِ قرآن ( حافظ قرآن اور اس پر عمل کرنے والے ) کو کہا جائے گا : قراء ت کرتے جاؤ اور ( جنت کی سیڑھیوں پر ) چڑھتے جاؤ ، اور ترتیل کے ساتھ پڑھو جیسا کہ تم دنیا میں ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے ، پس تمھاری منزل وہاں ہوگی جہاں تم آخری آیت ختم کرو گے ۔ ‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( اَلْمَاہِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَۃِ الْکِرَامِ الْبَرَرَۃِ،وَالَّذِیْ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَیَتَتَعْتَعُ فِیْہِ وَہُوَ عَلَیْہِ شَاقٌّ لَہُ أَجْرَانِ)) [2]
’’ جو شخص قرآن مجید کا ماہر ہو ( یعنی جس کا حفظ بہت اچھا ہو اور نہایت خوبصورت تلاوت کرتا ہو ) وہ معزز اور مطیع فرشتوں کے ساتھ ہو گا ۔ ( یعنی قیامت کے روز وہ ان منازل پر فائز ہو گا جہاں معزز فرشتے اس کے ساتھ ہو نگے۔)اور جو شخص قرآن پڑھتا ہو اور اس میں اسے تردد ہوتا ہو اور وہ مشقت محسوس کرتا ہو تو اس کیلئے دو اجر ہیں ۔ ‘‘ یعنی ایک اجر تلاوت کا اور دوسرا بار بار اسے دہرانے کا ۔
تا ہم اِس حدیث کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ جس کا حفظ کمزور ہو اس کو اچھے حفظ والے شخص سے زیادہ اجر ملے گا ۔ بلکہ اس میں تو اچھے قاری اور حافظ کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ قیامت کے روز فرشتوں کے ساتھ ہو گا ، رہا اس کا اجر وثواب تو وہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ اس کو کتنے اجر وثواب سے نوازے گا ۔
نماز میں قراء تِ قرآن کی فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ إِذَا رَجَعَ إِلٰی أَہْلِہٖ أَنْ یَّجِدَ فِیْہِ ثَلاَثَ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَان؟)) کیا تم میں سے کوئی شخص یہ بات پسند کرتا ہے کہ جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس واپس لوٹے تو وہاں تین موٹی تازی
[1] سنن أبي داؤد:1464، سنن الترمذی:2914۔ قال الألبانی : حسن صحیح
[2] متفق علیہ