کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 39
بخاری،مولاناعبدالعزیز رحیم آبادی،حافظ محمد اسماعیل روپڑی اور مولانا محمد جونا گڑھی رحمۃ اللہ علیہم میدان خطابت کے شہسواروں میں شمارہوتے تھے۔اور جن نامور خطباء اور شیریں بیان اور شعلہ نوا مقررین کو سننے کا موقعہ ملا ان میں سے قابل رشک لوگ جو اصولِ دعوت سے آگاہ اور فنِ خطابت کی نزاکتوں سے آشنا تھے ان ہر دلعزیز شخصیات میں خطیب ملت علامہ احسان الہٰی ظہیر رحمہ اللہ میدان خطابت کے وہ شہسوار ہیں جنہوں نے اللہ کی توفیق سے اس فن میں خصوصی دلچسپی اور محنت شاقہ سے ایک نیا طرز خطابت ایجاد کیا اور ہر اسٹیج پر اپنی خطابت کا لوہا منوایا اور بقول شاعر: تقریر کے ہنگام میں ا مڈتا ہوا دریا تحریر کے دوران صد قلزم ذخار اور شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری گلستان کتاب وسنت کے وہ بلبل شیدا ہیں کہ جس کے زمزموں کی صدا تقریبا پون صدی چمنستانِ توحید و سنت میں گونجتی رہی ، دنیا انہیں خطیب پاکستان کے لقب سے یاد کرتی ہے جن کی خوش الحانی اور سحر آفریں خطابت اور دلآویز مواعظ جس طرح سامعین کے کانوں میں رس گھو لتے اور دلوں پہ اپنی اثر انگیزی کا رنگ دکھاتے تھے اسے دیکھ کر بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے ۔ع دلوں کوکرتی تھی تسخیر گفتگو اس کی ہر اک شخص کو رہتی تھی آرزو اس کی اسی طرح مولاناقاری عبدالخالق رحمانی، مناظر اسلام حافظ عبد القادر روپڑی ،شیخ الحدیث مولانا محمدعبداللہ صاحب گوجرانوالہ رحمۃ اللہ علیہم اورسید عبدالمجید ندیم حفظہ اللہ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے خطباء ودعاۃ اللہ کے دین کی تبلیغ میں مصروف کار رہے اور ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کی محنت وکاوش کو قبول فرمائے۔آمین ۔ آخر الذکر کو اللہ تعالی صحت وعافیت عطا کرے ۔ انکے علاوہ باقی (مذکورہ)سب قابل رشک حضرات اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ تغمدہم اللّٰه برحمتہ وأسکنہم فسیح جناتہ ۔ع زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے فن خطابت کی تعریف خطابت خَطَبَ یَخْطُبُ سے مصدر ہے۔ خطب خطبۃ وخطابۃ[1]کہا جاتا ہے۔ ’’خطب علی المنبر خطبۃ وخطابۃ‘‘ اور ’’خطبۃ‘‘ خطیب کے بیان کو بھی کہا جاتا ہے۔
[1] مختار الصحاح:مادہ خطب،ص76 ،القاموس المحیط:مادہ خطب:65/1