کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 389
(( إِنَّ أَفْضَلَکُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہُ)) [1]
’’ یقینا تم میں سب سے افضل وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھلایا ۔‘‘
اور نافع بن عبد الحارث بیان کرتے ہیں کہ ’ عسفان ‘ میں ان کی ملاقات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی جو انھیں مکہ مکرمہ کا ذمہ دار مقرر کیا کرتے تھے ۔ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : اب آپ نے اہلِ وادی پر کس کو ذمہ دار مقرر کیا ہے ؟ انھوں نے فرمایا : ابن ابزی کو ۔ انھوں نے کہا : وہ کون ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : وہ ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک ہے ۔ انھوں نے کہا : تو کیا آپ نے آزاد کردہ غلام کو ذمہ دار بنا دیا ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
( إِنَّہُ قَارِیئٌ لِکِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَإِنَّہُ عَالِمٌ بِالْفَرَائِضِ )
’’ بے شک وہ قاریٔ قرآن ہے اور وراثت کے احکام کا عالم بھی ہے ۔‘‘
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : خبردار ! تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( إِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِہٰذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ [2]))
’’ بے شک اللہ تعالیٰ اِس کتاب کے ذریعے کچھ لوگوں کو بلندیاں نصیب کرتا ہے اور کچھ لوگوں کو نیچے گرا دیتا ہے ۔ ‘‘
قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والے اللہ کے خاص بندے ہیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( إِنَّ لِلّٰہِ أَہْلِیْنَ مِنَ النَّاسِ ))
’’ بے شک لوگوں میں سے کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہیں ۔‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : اللہ کے رسول ! وہ کون ہیں ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( ہُمْ أَہْلُ الْقُرْآنِ ، أَہْلُ اللّٰہِ وَخَاصَّتُہُ [3]))
’’ قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والے اللہ تعالیٰ کے دوست اور اس کے خاص بندے ہیں ۔‘‘
[1] صحیح البخاری:5028
[2] صحیح مسلم :817
[3] سنن ابن ماجہ:215 وصححہ الألبانی