کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 384
کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو آیات ِ قرآنیہ پڑھ کر سناتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اِس خدشے کے پیش نظر کہ کہیں قرآن مجید کی نازل کی گئی آیات کو آپ بھول نہ جائیں ، آپ جبریل امین علیہ السلام کی قراء ت کے ساتھ قراء ت کرنا شروع کردیتے ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : { لَا تُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ. إِنَّ عَلَیْْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہُ. فَإِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ. ثُمَّ إِنَّ عَلَیْْنَا بَیَانَہُ }[1]
’’ اور (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) وحی کے پڑھنے کے لئے اپنی زبان نہ چلایا کرو کہ اس کو جلد یاد کر لو۔ اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمے ہے۔ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم (اس کو سنا کرو اور) پھر اسی طرح پڑھا کرو۔ پھر اس (کے معانی) کا بیان بھی ہمارے ذمے ہے۔‘‘
اِس طرح قرآن مجید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینۂ اطہر میں محفوظ ہو جاتا ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبریل علیہ السلام سے قرآن کا دور کرتے رہتے یعنی مسلسل اسے دہراتے رہتے جیسا کہ ہم نے اِس خطبہ کے آغازمیں صحیح بخاری کی ایک حدیث کے حوالے سے ذکر کیا ہے ۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآنی آیات اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی سناتے جو سننے کے بعد انھیں اپنے سینوں میں محفوظ کر لیتے تھے ۔
اس کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتبانِ وحی مقرر کیا تھا ان میں سے کسی کے ذریعے اتری ہوئی آیات یاسورتیں لکھوانے کا اہتمام کر دیتے ۔
یوں قرآن مجید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں ہی لکھا ہوا بھی تھا اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سینوں میں بھی محفوظ تھا ۔ پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے حکم پر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے متفرق چیزوں پر لکھا ہوا قرآن مجید یکجا جمع کر دیا جو غیر مرتب صحیفوں کی شکل میں تھا ۔ اِس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہم نے ان مختلف صحیفوں کو ایک ہی نسخہ میں مرتب کردیا ، پھر اس سے مختلف نسخے نقل کئے گئے اور انھیں پوری مملکت اسلامیہ میں پھیلادیا گیااور آج بھی دنیا کے ہر ہر کونے میں وہ مصحف موجود ہے ، اور اگر اس کا ایک نسخہ مشرق سے اور دوسرا مغرب سے لے کر دونوں میں مقارنہ کیا جائے تو الفاظ کا فرق تو کجا ان میں زبر زیر کا فرق بھی نہیں ہو گا ۔
اس کے علاوہ دنیا بھر میں قرآن مجید کے حفاظ موجود ہیں اور مسلمانوں میں حفظ ِ قرآن کا ایک ایسا جذبہ پایا جاتا ہے کہ اُس جیسا جذبہ دنیا کی کسی کتاب کو حفظ کرنے کے متعلق نہیں پایا جاتا ۔ والدین اپنے بچوں کو قرآن حفظ کرانا اپنے اور اپنی اولاد کیلئے سعادت مندی تصور کرتے ہیں ۔ مساجد میں حفظ قرآن کا ایک نظام پایا جاتا ہے
[1] القیامۃ75:19-16