کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 38
قارئین !سائل کا استفسار بتلا رہا ہے کہ سامعین خطیب کے طرز خطابت اور انداز بیان اور حسن اداء سے کس قدر متاثر ہوتے ہیں۔اور جن ایام میں امام مظلوم سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں محصور تھے تو اس سال خطبۂ حج مفسر قرآن سیدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے دیا اور سامعین کا اس کی فصاحت وبلاغت اور حسن وخوبی کے پیش نظر یہ تاثر تھا کہ اگر آج کا خطبہ’’ ترک‘‘ ا ور’’ دیلم ‘‘سن لیتے تو مسلمان ہو جاتے۔ اور شاعرِ رسولِ مقبول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسی خطبہ کے متعلق فرمایا تھا: إذا قال لم یترک مقالا لقائل بملتقطات لا تری بینہا فضلا کفی وشفی ما فی النفوس ولم یدع لذی اربۃ فی القول جدا ولا ہزلا سموت إلی العلیا بغیر مشقۃ فنلت ذراہا لا دنیا ولا وغلا [1] ’’جب وہ اپنے خطاب میں ایسے لعل وجواہر کی مالا پروتے جوایک سے ایک بڑھ کر ہوتا تو انکے بعد کسی میں گفتگو کرنے کا یارا نہ ہوتا ۔ان کا بیان ایساجامع اور اطمئنان بخش ہوتا کہ کسی کو مزید وضاحت طلب کر نے کی حاجت محسوس نہ ہوتی۔(اے سخنور ہردلعزیز!)آپ بغیرکسی تکلف کے اوج کمال تک جا پہنچے اور اس سے نیچے کوئی مقام آپ کی نگاہ میں جچا ہی نہیں۔‘‘ اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی وہ پہلے خطیب ہیں جنہوں نے بصرہ میں برسر منبر سورۂ بقرہ اور آل عمران کی حرف بحرف تفسیر کی۔ (کان واللّٰه مثجا یسیل غربا) اللہ کی قسم!وہ ایسے زبان آور خطیب تھے جن کے بیان میں آبشاروں کی سی روانی تھی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں وراثت نبوی کے تحفظ اور تبلیغ دین کے لیے ایسے نابغۂ روز گار اور فرید العصر شخصیات کو پیدا فرمایا کہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں اور اس کے ودیعت کردہ ملکۂ خطابت سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے پرزور انداز میں دعوت حق کو پیش کیا اور لوگوں کے قلوب واذہان کو کتاب وسنت کے نور سے منور کیا اور لوگوں نے ان کی سخنوری ،سحر بیانی اور انقلاب آفریں خطابت کاکھلے عام اعتراف کیا اور بقول حفیظ جالندہری: حفیظ اہل زبان کب مانتے تھے بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں ہم نے جب ہوش سنبھالا تو جن قائدین وزعماء کی شعلہ نوائی اور سحر انگیز خطابت اور زور بیان کے تذکرے زبان زد عوام تھے ان میں امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد،سید ابو بکر غزنوی، آغا شورش کاشمیری ،سید عطاء اللہ شاہ
[1] البیان والتبین للجاحظ