کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 377
(( مَنْ لَّمْ یُبَیِّتِ الصِّیَامَ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ،فَلَا صِیَامَ لَہُ)) [1]
’’جس نے طلوع فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں ہے ۔ ‘‘
لیکن نفلی روزے کی نیت طلوع فجر کے بعد ظہر سے پہلے بھی کی جاسکتی ہے بشرطیکہ طلوعِ فجر کے بعد کچھ نہ کھایا پیا ہو ۔
واضح رہے کہ نیت کا تعلق دل سے ہے، لہٰذا دل ہی میں روزہ کی نیت کی جائے اورجہاں تک نیت کے مروجہ الفاظ (وَبِصَوْمِ غَدٍ نَوَیْتُ مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ)کا تعلق ہے تو یہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہیں ۔
(۲) سحری کھانا
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( تَسَحَّرُوْا فَإِنَّ فِی السَّحُوْرِ بَرَکَۃً [2]))
’سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ ‘‘
اور دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا:((اَلسَّحُوْرُ کُلُّہُ بَرَکَۃٌ،فَلَا تَدَعُوْہُ،وَلَوْ أَنْ یَّجْرَعَ أَحَدُکُمْ جُرْعَۃً مِّنْ مَّائٍ،فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّوْنَ عَلَی الْمُتَسَحِّرِیْنَ)) [3]
’’ سحری ‘ پوری کی پوری برکت ہے ، اس لئے اسے مت چھوڑا کرو اگرچہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ سحری کرنے والوں پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے ان کیلئے دعا کرتے ہیں ۔ ‘‘
سحری تاخیر سے کھانا افضل ہے۔ جیسا کہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ سحری کھاتا، پھر جلدی جلدی آتا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ لوں۔ [4]
اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کرتے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی طرف چلے جاتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے پوچھا : اذان اور سحری کے درمیان کتنا وقفہ ہوتا تھا ؟ تو انھوں نے کہا : پچاس آیات کی تلاوت کے بقدر ۔ ‘‘[5]
[1] صحیح الجامع الصغیر للألبانی:6534
[2] صحیح البخاری:1923،صحیح مسلم:1095
[3] أحمد،صحیح الترغیب والترہیب للألبانی:1070
[4] صحیح البخاری:1920
[5] صحیح البخاری:1921