کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 37
بعض خطاب اور بیان جادو اثر اور مسحور کن ہوتے ہیں۔
اسی لیے بعض علماء نے اسے سحرحلال سے تعبیر کیا ہے۔ بقول شاعر:
وکلامہ السحر الحلال لو أنہ لم یجن قتل المسلم المتحرز
إن طال لم یملل وإن أوجزتہ ود المحدث أنہ لم یوجز[1]
اگر وہ کسی بے گناہ مسلمان کے قتل کا باعث نہ ہو تو ا س کابیان جادو اثر ہے ۔ اس کی طوالت میں اکتاہٹ نہیں اورمختصر ہو تو سامع مزید سننے کی خواہش کرے ۔
اثر لبھانے کا پیارے تیرے بیان میں ہے کسی کی آنکھ میں جادو تیری زبان میں ہے
فہم وتدبر اور عمل والتزام کا مرتبہ چونکہ حسن استماع اور کامل انتباہ کے ساتھ گفتگو سننے کے بعد آتا ہے۔جیسا کہ ارشاد باری ہے:{ اَلَّذِیْنَ یَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُونَ أَحْسَنَہُ}[2] کہ دانا وعقل مندلوگ بات کو توجہ سے سنتے اور عمدہ اور اچھی بات کو اپنا لیتے ہیں۔ نیز فرمایا کہ قبول نصیحت کے لیے کامل توجہ سے سننا لازم ہے۔{ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَذِکْرَی لِمَنْ کَانَ لَہُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ}[3]اس لیے واعظ وخطیب اور ناصح امین کو حسنِ القاء اور خوبی بیان کے اوصاف سے متصف ہونا چاہئے تاکہ اپنے ہدف اور حصول مقصد میں کامیابی سے ہمکنار ہو ۔ چنانچہ وہ خطابات اور مواعظ جن کو سماعت کرنے کے بعد سامعین برملااظہار کریں اور بے ساختہ پکار اٹھیں۔ع
دیکھنا تقریر کی لذت جو اس نے کہا
میں نے سوچا شاید یہ بھی میرے دل میں ہے
ایسے بیان وخطبات لوگوں کو دعوت فکر دیتے اور غور وخوض پر مجبور کرتے ہیں۔چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دن اللہ کے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو خطاب کیا جس سے سامعین کے دیدے برسنے لگے اور دل لرزنے لگے۔جب آپ علیہ السلام خطاب کے بعد واپس جانے لگے تو (خطاب سے متاثرین میں سے)ایک شخص نے آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر(عقیدت مندانہ)استفسار کیا (ہَلْ فِی الأرْضِ أَحَدٌ أَعْلَمُ مِنْکَ ) [4] کہ کیا روئے زمین پر آپ سے بڑا عالم بھی کوئی ہے؟
[1] فقہ الخطیب
[2] الزمر39:18
[3] ق50:37
[4] صحیح البخاری، کتاب التفسیر:4726