کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 366
’’ ابن آدم کا ہر ( نیک ) عمل کئی گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے ، ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ، حتی کہ سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : سوائے روزے کے جو کہ صرف میرے لئے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دونگا کیونکہ وہ میری وجہ سے اپنی شہوت اور اپنے کھانے کو چھوڑتا ہے ۔ ‘‘ (إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّہُ لِیْ)’’ سوائے روزے کے جو کہ صرف میرے لئے ہوتا ہے ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ مومن کے باقی نیک اعمال مثلا نماز ، صدقہ اور ذکر وغیرہ تو ظاہری ہوتے ہیں اور فرشتے انھیں نوٹ کر لیتے ہیں ، جبکہ روزہ ایسا عمل نہیں جو ظاہر ہو بلکہ صرف نیت کرنے سے ہی انسان روزے کی حالت میں چلا جاتا ہے اور نیت کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں ہوتا حتی کہ فرشتے بھی نہیں جانتے ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ صرف میرے لئے ہے اور اس کا بدلہ بھی میں ہی دونگا اور شاید یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کو بے مثال عمل قرار دیا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول ! مجھے کوئی حکم دیں جس پر میں عمل کروں ( ایک روایت میں ہے کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ مجھے نفع پہنچائے اور ایک روایت میں ہے کہ مجھے کسی ایسے عمل کا حکم دیں جو مجھے جنت میں داخل کردے ۔) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(عَلَیْکَ بِالصِّیَامِ فَإِنَّہُ لَا عِدْلَ لَہُ ) ’’ تم روزہ رکھا کرو کیونکہ اس کے برابر کوئی عمل نہیں ۔ ‘‘[1] یعنی شہوت کو ختم کرنے اور نفس امارہ اور شیطان کا مقابلہ کرنے میں اور اجر وثواب میں روزے جیسا کوئی عمل نہیں ۔ اور چونکہ روزے کا اجرو وثواب بہت زیادہ ہے اور اسکی مقدار کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اِس لئے روزہ دار جب قیامت کے روز اللہ تعالیٰ سے ملے گا اور اسے اللہ تعالیٰ روزے کا اجر وثواب دے گا تو اسے بے انتہا خوشی ہو گی ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ یَفْرَحُہُمَا:إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ،وَإِذَا لَقِیَ رَبَّہُ فَرِحَ بِصَوْمِہٖ[2])) ’’ روزہ دار کیلئے دو خوشیاں ہیں ، ایک افطاری کے وقت اور دوسری اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت ۔ ‘‘
[1] سنن النسائی،الصیام،باب فضل الصیام:2220،وسنن ابن خزیمۃ:1893،وصحح إسنادہ الحافظ ابن حجر فی الفتح:126/4والألبانی فی الصحیحۃ:1937 [2] صحیح البخاری:1904، صحیح مسلم:1151