کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 354
جَازَتْ أُخْرَاہَا رُدَّتْ عَلَیْہِ أُوْلاَہَا حَتّٰی یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ[1])) ’’ جس شخص کے پاس اونٹ یا گائے یا بکریاں ہوں اور اس نے ان کی زکاۃ ادا نہ کی تو قیامت کے دن انھیں بہت بڑا او ربہت موٹا کرکے لایا جائے گا ، پھر وہ اسے اپنے ٹاپوں سے روندیں گے اور اپنے سینگوں سے ماریں گے ، جب سب اس کے اوپر سے گذر جائیں گے تو پہلے کو پھر لوٹایا جائے گا اور لوگوں کا فیصلہ ہونے تک اس کے ساتھ اسی طرح ہوتا رہے گا ۔‘‘ مویشیوں میں زکاۃ کی فرضیت کیلئے چار شرطیں ہیں : ایک یہ کہ وہ اپنے مقررہ نصاب کو پہنچ جائیں ۔ اونٹوں کا کم ازکم نصاب پانچ ، گائے / بھینس کا تیس اور بھیڑ بکریوں کا چالیس ہے ۔ دوسری شرط یہ کہ ان کی ملکیت پر سال گذر جائے ۔ تیسری یہ کہ سال کا اکثر حصہ یہ مویشی چرتے رہے ہوں اور مالک کو سال بھر یا سال کا بیشتر حصہ ان کی خوراک خریدنا نہ پڑی ہو۔ اور چوتھی شرط یہ کہ یہ جانور کھیتی باڑی یا بوجھ برداری کیلئے نہ ہوں ۔ یہاں یہ بات مدنظر رہنی چاہئے کہ مویشیوں کو اگر تجارت کی نیت سے خریدا گیا ہو تو ان کی زکاۃ دوسرے سامانِ تجارت کی زکاۃ کی طرح نکالی جائے گی ، چنانچہ ان کی قیمت کا اعتبار ہوگا نہ کہ تعداد کا۔ تنبیہ : مویشیوں کے نصاب کی دیگر تفاصیل حدیث اور فقہ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ 4۔ زرعی پیداوار فرمان الٰہی ہے: {یَااَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْأَرْضِ} [2] ’’ اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور ہم نے تمھارے لئے زمین سے جن چیزوں کو نکالا ہے ، ان میں سے خرچ کرو۔ ‘‘ اس آیت سے ثابت ہوا کہ زمینی پیداوار مثلا گیہوں ، جَو ، چاول ، کھجور ، انگور اور زیتون وغیرہ میں زکاۃ فرض ہے اور اس بات پر پوری امت کا اجماع ہے۔ زرعی پیداوار کا نصابِ زکاۃ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے :(( لَیْسَ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسَۃِ أَوْسُقٍ صَدَقَۃٌ [3]))
[1] صحیح البخاری:1460 [2] البقرۃ2:267 [3] صحیح البخاری:1405،صحیح مسلم:979