کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 353
2۔تجارتی سامان دوسری چیز جس پر زکاۃ فرض ہوتی ہے وہ ہے ’’ تجارتی سامان‘‘ اور اس سے مراد وہ تمام اشیاء ہیں جنھیں تجارت کی نیت سے خریدا جائے ، چاہے مقامی مارکیٹ سے یا باہر سے درآمد کرکے ۔ اس طرح وہ تمام چیزیں اس حکم سے نکل جاتی ہیں جنھیں کسی نے اپنے ذاتی استعمال کیلئے خریدا ہو ، مثلا گھر ، گاڑی اور زمین وغیرہ تو ایسی اشیاء پر زکاۃ فرض نہیں اور اسی طرح صنعتی مشینری، آلات ، سٹورز اور ان میں پڑی الماریاں ، دفاتر اور ان کے لوازمات پر بھی زکاۃ فرض نہیں کیونکہ ایسی تمام اشیاء ایک جگہ برقرار رہتی ہیں اور انھیں بیچ کر تجارت کرنا مقصود نہیں ہوتا۔ تجارتی سامان کی زکاۃ نکالنے کا طریقہ سال کے اختتام پر تاجر ( چاہے فرد ہو یا کمپنی ) کو چاہئے کہ وہ اپنے تمام تجارتی سامان کی مارکیٹ کے موجودہ ریٹ کے مطابق قیمت لگائے ، پھر اس کے پاس سال بھر جو نقدی کرنسی رہی ہو اسے اس میں شامل کرلے ۔ اسی طرح اس کا جو قرضہ قابل واپسی ہو اسے بھی حساب میں شامل کرلے اور اگر وہ خود مقروض ہو تو قرضے کی رقم نکال کر باقی تمام رقم کا اڑھائی فیصد یا چالیسواں حصہ بطورِ زکاۃ ادا کردے ۔ مسئلہ :صنعتی آلات اور مشینری کی اصل قیمت پر تو زکاۃ فرض نہیں ، البتہ ان کی آمدنی اگر زکاۃ کے نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گذر جائے تو اس سے زکاۃ نکالنا ضروری ہوگا۔ اور یہی حکم کرائے پر دیے ہوئے مکانوں ، دوکانوں اور گاڑیوں وغیرہ کا بھی ہے کہ ان کی اصل قیمت پر زکاۃ نہیں ، کرائے پر ہے بشرطیکہ کرایہ نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گذر جائے تواس کا اڑھائی فیصد ادا کرنا ہوگا ۔ البتہ ان اشیاء پر ادا کیا جانے والا ٹیکس اور ان کی دیکھ بھال پر آنے والے دیگر اخراجات ان چیزوں کی آمدنی سے نکال لیے جائیں ۔ اسی طرح اگر مالک کا کوئی اورذریعہ معاش نہیں تو وہ اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے جائز اخراجات بھی آمدنی سے نکال لے ، پھر جو رقم باقی ہو اس سے زکاۃ ادا کردے ۔ 3۔حیوانات جن مویشیوں پر زکاۃ فرض ہے وہ یہ ہیں : اونٹ ، گائے / بھینس او ربھیڑ بکریاں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :(( مَا مِنْ رَجُلٍ تَکُوْنُ لَہُ إِبِلٌ أَوْ بَقَرٌ أَوْ غَنَمٌ لَا یُؤَدِّیْ حَقَّہَا إِلَّا أُتِیَ بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْظَمَ مَا تَکُوْنُ وَأَسْمَنَہُ،تَطَؤُہُ بِأَخْفَافِہَا وَتَنْطَحُہُ بِقُرُوْنِہَا،کُلَّمَا