کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 352
آتی ہے۔ لہٰذا جس شخص کے پاس چاندی کے نصاب کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ کرنسی موجود ہو اور اس پر سال گذر چکا ہو تو اس میں زکاۃ فرض ہوگی۔
مسئلہ (3) : قرض کی زکاۃ کی دو صورتیں ذہیں : پہلی یہ کہ مقروض قرضہ تسلیم کرتا ہو اور اسے جلد یا بدیر واپس کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو ، یامقروض تو قرضے سے انکاری ہو لیکن عدالت میں کیس کرکے اس سے قرضہ واپس لینے کا یقین ہو تو اس صورت میں قرض کی رقم کی زکاۃ قرض خواہ کو ادا کرنی ہوگی ۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ سال کے اختتام پر جب موجودہ مال کا حساب کیا جا رہا ہو اس کے ساتھ قرض کی رقم کو بھی ملا لیا جائے اور ٹوٹل مبلغ کا اڑھائی فیصد بطور زکاۃ ادا کردیا جائے ۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ مقروض قرضے سے انکاری ہو اور عدالت کے ذریعے اسے واپس لینے کا امکان بھی نہ ہو ، یا وہ قرضے کو تسلیم تو کرتا ہو لیکن ہر آئے دن واپسی کا وعدہ کرکے وعدہ خلافی کرتا ہو ، یا اس کے حالات ہی ایسے ہوں کہ وہ قرضہ واپس کرنے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو تو ایسی صورت میں قرض کی رقم پر زکاۃ فرض نہیں ہوگی ، ہاں جب مقروض قرضہ واپس کردے تو گذشتہ ایک سال کی زکاۃ ادا کردی جائے۔
مسئلہ( 4 ) : ایک شخص کے پاس زکاۃ کا نصاب تو موجود ہو ،چاہے سونا / چاندی کی شکل میں یا نقدی کرنسی کی شکل میں یا کسی اور شکل میں ، لیکن وہ خود دوسروں کا مقروض ہو اور اگر زکاۃ ادا کرے تو مزید بوجھ تلے دب جانے کا اندیشہ ہو تو ایسی حالت میں اس پر زکاۃ فرض نہیں ہوگی ، ہاں اگر قرض کی ادائیگی کے بعد بھی اس کے پاس زکاۃ کے نصاب کے برابر مال موجود ہو اور اس پر سال گذر چکا ہو تو اس کا اڑھائی فیصد زکاۃ کی نیت سے ادا کرنا ضروری ہوگا۔
مسئلہ( 5 ) : کمپنی کے حصص ( شیئرز) اگر تجارتی مقصد سے خریدے گئے ہوں اور ان پر سال گذر چکا ہو تو ان کی زکاۃ ادا کرنا لازمی ہوگا ۔ اگر خود کمپنی تمام پارٹنرز کے حصص کی زکاۃ ادا کردیتی ہے تو ٹھیک ہے ، ورنہ ہر پارٹنر اپنے اپنے حصص کی زکاۃ ادا کرنے کا پابند ہوگا۔
مسئلہ( 6 ) : زکاۃ خالص سونے / چاندی پر فرض ہوتی ہے ، لہٰذا ملاوٹ کو وزن میں شمار نہیں کیا جائے گا،اس طرح اگر ملاوٹ کا وزن نکال کر خالص سونے / چاندی کا وزن مقررہ نصاب سے کم ہو جائے تو اس پر زکاۃ فرض نہیں ہوگی۔