کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 349
کے قرب وجوار میں رہنے والے دوسرے لوگ غربت کی چکی میں پستے رہتے ہیں جو بہت بڑا ظلم ہے ۔ چنانچہ معاشرے میں مالیاتی توازن برقرار رکھنے ا وراس معاشرتی ظلم کا سد باب کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے زکاۃ کو فرض کیا اور صدقات اور انفاق کی طرف ترغیب دلائی تاکہ معاشرے کے تمام افراد مال ودولت سے مستفید ہوتے رہیں۔ (3) زکاۃ کی ادائیگی سے مالدار اور فقیر کے درمیان محبت پیدا ہوتی ہے اور یوں معاشرہ بغض، نفرت او رخود غرضی جیسی بیماریوں سے پاک ہو جاتا ہے ۔ زکاۃ دینے والے میں سخاوت ، شفقت اور ہمدردی اور زکاۃ لینے والے میں احسانمندی ، تواضع اور انکساری جیسی صفات حمیدہ پیدا ہو جاتی ہیں ۔ گویا نظامِ زکاۃ معاشرے میں اخلاقی قدروں کو پروان چڑھاتا ہے۔ ( 4 ) تاریخ شاہد ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں جب زکاۃ کو حکومتی سطح پر جمع اور اسے فقراء میں تقسیم کیا جاتا تھا تو ایک وقت ایسا بھی آیا جب تلاش کرنے کے باوجود بھی معاشرے میں فقراء نہیں ملتے تھے ، چنانچہ زکاۃ بیت المال میں جمع کرادی جاتی تھی اورپھر اسے مسلمانوں کے مفادات عامہ میں خرچ کر دیا جاتا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ اسلامی نظامِ زکاۃ سے معاشرے میں غربت ختم ہوتی ہے بشرطیکہ اسے پورے اخلاص اور مکمل دیانتداری کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ ( 5 ) مالدار لوگ اگر زکاۃ ادا نہ کریں تو معاشرے میں موجود فقراء احساسِ کمتری کا شکار ہو جائیں اور ان کے دلوں میں مالداروں کے خلاف شدید عداوت پیدا ہو جائے ۔ او رپھر وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے چوری اور ڈاکہ زنی جیسے جرائم کا ارتکاب شروع کردیں ۔ یوں معاشرہ بد امنی اور لا قانونیت کی بھیانک تصویر بن جائے ، گویا اسلامی نظامِ زکاۃ ان اخلاقی جرائم کا سد باب کرتااور معاشرے کو امن وسکون کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ ( 6 ) مال اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جس کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے ۔ اور اس کی واحد شکل یہ ہے کہ اس کی زکاۃ ادا کی جائے ۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ جب اللہ کی نعمتوں پر شکریہ ادا کیا جائے تو اللہ کی عنایات میں اور اضافہ ہو جاتا ہے ۔ فرمان الٰہی ہے :{ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ }[1] ’’ اگر تم شکر ادا کروگے تو میں ضرور بالضرور تمھیں اورزیادہ دوں گا ۔ ‘‘
[1] إبراہیم 14:7