کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 348
{وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکَاۃِ فَاعِلُوْنَ }[1]
’’ اور جو زکاۃ ادا کرنے والے ہیں۔ ‘‘
( 6 ) حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : مجھے ایسا عمل بتائیے جسے کرنے سے میں جنت میں چلا جاؤں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( تَعْبُدُ اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُ بِہ شَیْئًا،وَتُقِیْمُ الصَّلَاۃَ الْمَکْتُوْبَۃَ،وَتُؤْتِی الزَّکَاۃَ،وَتَصِلُ الرَّحِمَ)) [2]
’’ اللہ ہی کی عبادت کرتے رہو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت بناؤ۔ فرض نماز پابندی سے ادا کرتے رہو ، زکاۃ ادا کرتے رہو اور صلہ رحمی کرتے رہو۔ ‘‘
( 7 ) زکاۃ کی ادائیگی سے مال بڑھتا اور بابرکت ہو جاتا ہے اورآفتوں سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔ فرمان الٰہی ہے :
{ وَمَا آتَیْتُمْ مِنْ رِّباً لِّیَرْبُوَ فِیْ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلاَ یَرْبُوْ عِنْدَ اللّٰہِ وَمَا آتَیْتُمْ مِّنْ زَکَاۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰئِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ }[3]
’’ اور جو تم سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں اضافہ ہوتا رہے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا۔ اور جو تم زکاۃ دوگے اللہ کی خوشنودی پانے کی خاطر تو ایسے لوگ ہی کئی گنا زیادہ پانے والے ہیں۔ ‘‘
زکاۃ کے فوائد
( 1 ) اللہ تعالیٰ نے رزق کی تقسیم اپنے ہاتھ میں رکھی ہے ، جسے چاہے زیادہ دے اور جسے چاہے تھوڑا دے ، لیکن مالدار کو اللہ تعالیٰ نے زکاۃ دینے ، صدقہ کرنے اور خرچ کرنے کا حکم دیا ہے ، تاکہ جسے اللہ نے تھوڑا دیا ہے اسے بغیر سوال کے ملتا رہے اور اس کی ضروریات پوری ہوتی رہیں ۔ اور فقیرکو اللہ تعالیٰ نے سوال سے بچنے کاحکم دیا ہے تاکہ اس کے اندر صبرو شکر جیسی صفات حمیدہ پیدا ہوں ۔ اس طرح معاشرے کے یہ دونوں فرد اللہ کے اجروثواب کے مستحق ہوتے ہیں، مالدار خرچ کرکے اور فقیر صبروشکر کرکے۔
( 2 ) اسلام کے مالیاتی نظام کی ایک خوبی یہ ہے کہ ا گر پورے اخلاص کے ساتھ اس پر عمل کیا جائے تو دولت چند لوگوں کے ہاتھوں میں منحصر ہونے کی بجائے معاشرے کے تمام افراد میں گردش کرتی رہتی ہے۔اسکے برعکس دیگر مالیاتی نظاموں میں یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے چند افراد تو عیش وعشرت سے زندگی بسر کرتے ہیں اور انہی
[1] المؤمنون 23:4
[2] متفق علیہ
[3] الروم30:39