کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 346
’’بے شک وہ آدمی جو اپنے صدقے کو واپس لے لے اُس کی مثال اُس کتے کی سی ہے جو سیر ہو کر کھائے ، پھر قے کر دے اور پھر اسی کو چاٹنا شروع کردے ۔ ‘‘ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کیلئے ایک گھوڑا دیا تواس نے اس کی غذا وغیرہ کا اہتمام نہ کیا جس سے وہ کمزور پڑ گیا۔ پھر میں نے ارادہ کیا کہ ( اگر وہ مل جائے تو ) میں اسے خرید لوں ۔ میرا خیال یہ تھا کہ وہ آدمی اسے سستے داموں بیچ دے گا ۔ چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا تَشْتَرِہ،وَلَا تَعُدْ فِیْ صَدَقَتِکَ وَإِنْ أَعْطَاکَہُ بِدِرْہَمٍ،فَإِنَّ الْعَائِدَ فِیْ صَدَقَتِہٖ کَالْکَلْبِ یَعُوْدُ فِیْ قَیْئِہ [1])) ’’ اسے مت خریدو اور اپنا صدقہ مت واپس لو اگرچہ وہ تمھیں ایک ہی درہم میں کیوں نہ دے ، کیونکہ اپنا صدقہ واپس لینے والا شخص اس کتے کی مانند ہے جو اپنی قے کو دوبارہ چاٹنا شروع کردے ۔ ‘‘ لہٰذا انفاق فی سبیل اللہ کرنے والوں کو ان تمام امور سے اجتناب کرنا چاہئے جو ان کے صدقات کو ضائع کردینے و الے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق دے اور ہمارے صدقات کو قبول فرمائے ۔ دوسرا خطبہ پہلے خطبہ میں ہم نے صدقات کے فضائل وفوائد اور ان کے بعض احکام بیان کئے۔ اب یہ بھی جان لیجئے کہ صدقات میںسب سے اہم صدقہ فریضہ ٔ زکاۃ کی ادائیگی ہے ۔ زکاۃ کی تعریف عربی زبان میں لفظ ’’ زکاۃ ‘‘ پاکیزگی ، بڑھوتری اور برکت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ شریعت میں ’’زکاۃ ‘‘ ایک مخصوص مال کے مخصوص حصے کو کہا جاتا ہے جو مخصوص لوگوں کو دیا جاتا ہے ۔ اور اسے ’’زکاۃ ‘‘ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس سے دینے والے کا تزکیۂ نفس ہوتا ہے اور اس کامال پاک اور بابرکت ہو جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ’’ زکاۃ ‘‘ کیلئے قرآن وسنت میں ’’ صدقہ ‘‘کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے : {خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا}[2]
[1] صحیح البخاری:2623 ، صحیح مسلم:1620 [2] التوبۃ9:103