کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 343
یَقْدِرُونَ عَلَی شَیْْئٍ مِّمَّا کَسَبُوا وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْکَافِرِیْنَ. وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَتَثْبِیْتًا مِّنْ أَنفُسِہِمْ کَمَثَلِ جَنَّۃٍ بِرَبْوَۃٍ أَصَابَہَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُکُلَہَا ضِعْفَیْْنِ فَإِن لَّمْ یُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ } [1] ’’ مومنو! اپنے صدقات (وخیرات) کو احسان جتلاکر اور ایذا دے کر اُس شخص کی طرح برباد نہ کرو جو لوگوں کو دکھانے کیلئے مال خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا ۔ تو اُس (کے مال) کی مثال اُس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور اُس پر زور کا مینہ برسے اور وہ اُسے صاف کر ڈالے ۔ (اسی طرح) یہ (ریاکار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اور اللہ ایسے ناشکروں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ اور جولوگ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اور خلوصِ نیت سے اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پرواقع ہو۔ (جب) اُس پر مینہ پڑے تو دُگنا پھل لائے اور اگر مینہ نہ بھی پڑے تو خیر پھوار ہی سہی۔ اور اللہ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے ۔ ‘‘ ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے احسان جتلا کر اور جس پر خرچ کیا جائے اسے اذیت پہنچا کر اپنے صدقات کو برباد کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ ان دونوں چیزوں سے صدقات کا اجر وثواب ضائع ہو جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ریاکاری کی نیت سے خرچ کرنے والے اور محض اللہ تعالیٰ کی رضاکیلئے خرچ کرنے والے کی الگ الگ مثالیں ذکر کی ہیں ، دکھلاوا کرتے ہوئے خرچ کرنے والے کے عمل کو اللہ تعالیٰ نے اس چٹان کی طرح قرار دیا ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو ، پھر اس پر موسلا دھار بارش برسے تو اُس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ مٹی بالکل صاف ہو جائے گی ، اسی طرح لوگوں کو دکھانے یا ان سے تعریف سننے کی خاطر خرچ کرنے والے شخص کو بھی کچھ نہیں ملتا ۔اور اخلاص نیت کے ساتھ خرچ کرنے والے کے عمل کو اللہ تعالیٰ نے اس باغ کی مانند قرار دیا ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو ، اگر اس پر بارش برسے تو وہ دوگناپھل دیتا ہے ۔ اور اگر بارش نہ برسے تو صرف پھوار ہی کافی ہوتی ہے اور وہ پھر بھی کچھ نہ کچھ پھل ضرور دیتا ہے ، اسی طرح صدقات میں اگر اخلاص نیت اور صرف رضائے الٰہی کی طلب ہو تو ان کا اجر وثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اسی لئے جو صدقہ خفیہ طور پر کیا جائے وہ اُس صدقے سے بہتر ہے جو ظاہری طور پر کیا جائے کیونکہ خفیہ طور پر صدقہ کرنے میں اخلاص زیادہ ہوتا ہے اور ریاکاری سے زیادہ دور ہوتا ہے۔
[1] البقرۃ2 :265-264