کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 334
انفاق فی سبیل اللہ ایک نفع بخش تجارت ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے : {إِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُونَ کِتَابَ اللّٰہِ وَأَقَامُوا الصَّلاَۃَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً یَّرْجُونَ تِجَارَۃً لَّنْ تَبُورَ. لِیُوَفِّیَہُمْ أُجُوْرَہُمْ وَیَزِیْدَہُمْ مِّن فَضْلِہِ إِنَّہُ غَفُورٌ شَکُورٌ }[1] ’’بے شک وہ لوگ جو اللہ کی کتاب کو پڑھتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس سے وہ خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں ، وہ ایسی تجارت کے امید وار ہیں جس میں کبھی خسارہ نہ ہو گا ۔ تاکہ اللہ انھیں ان کا پورا پورا اجر دے اور اپنے فضل وکرم سے مزید عطا کرے ، یقینا وہ معاف کرنے والا اور بڑا قدر دان ہے ۔ ‘‘ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ایک ایسی تجارت ہے جس میں کبھی خسارہ نہیں ہوتا ، منافع ہی منافع حاصل ہوتے ہیں ، یعنی موجودہ مال میں برکت آتی ہے اور مزید رزق کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {إِن تُقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضَاعِفْہُ لَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللّٰہُ شَکُورٌ حَلِیْمٌ}[2] ’’ اگر تم اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دو تو وہ اسے کئی گنا بڑھا دے گا اور تمھیں معاف کردے گا ، اللہ تعالیٰ بڑا قدر دان اور نہایت بردبار ہے ۔ ‘‘ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انفاق فی سبیل اللہ کو قرض حسنہ قرار دیا ہے حالانکہ مال کا اصل مالک بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے ، وہ جس کو چاہے کم دے اور جس کو چاہے زیادہ عطا کرے ۔ اور اصل مالک کو مال لوٹا دینا قرض نہیں کہلاتالیکن یہ در حقیقت اُس مالک کا کرم ہے کہ وہ اسے قرض حسنہ قرار دیتا ہے اور اسے کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:{یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ أَثِیْمٍ}[3] ’’ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کی پرورش کرتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ نا شکرے اور بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا ۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ صدقات کی پرورش کیسے کرتا ہے اس کی وضاحت ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ملتی
[1] فاطر35:30-29 [2] التغابن64: 317 [3] البقرۃ2 :276