کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 327
کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس رات میں خصوصی طور پر کسی عبادت کا اہتمام نہیں کیا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رات خود خصوصی طور پر منائی اور نہ اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی ترغیب دلائی ، لہٰذا جب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کا اہتمام نہیں کیا تو ہمیں بھی نہیں کرنا چاہئے ۔ جب آپ نے یہ رات نہیں منائی تو ہمیں بھی نہیں منانی چاہئے ۔ حافظ ابن رجب کہتے ہیں : (قِیَامُ لَیْلَۃِ النِّصْفِ لَمْ یَثْبُتْ فِیْہِ شَیْئٌ عَنِ النَّبِیِّ صلي اللّٰه عليه وسلم وَلَا عَنْ أَصْحَابِہٖ…)[1] ’’ شعبان کی پندرھویں رات کے قیام کی فضیلت میں نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ثابت ہے اور نہ آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے ۔‘‘ اور امام ابو بکر طرطوشی نے زید بن اسلم سے ( جو ایک تابعی ہیں ) نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا:(مَا أَدْرَکْنَا أَحَدًا مِنْ مَشْیَخَتِنَا وَلاَ فُقَہَائِنَا یَلْتَفِتُونَ إِلَی النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ،وَلاَ یَلْتَفِتُونَ إِلٰی حَدِیثِ مَکْحُولٍ،وَلاَ یَرَوْنَ لَہَا فَضْلاً عَلٰی مَا سِوَاہَا،وَقِیلَ لاِبْنِ أَبِی مُلَیکَۃَ:إِنَّ زِیَادًا یَقُولُ:إِنَّ أَجْرَ لَیلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ کَأَجْرِ لَیلَۃِ الْقَدْرِ،فَقَالَ:لَوْ سَمِعْتُہُ وَبِیَدِیْ عَصًا لَضَرَبْتُہُ) [2] ’’ ہم نے اپنے مشائخ اور فقہاء میں سے کسی کو شعبان کی پندرھویں رات کی طرف اور نہ ہی حدیث ِمکحول کی طرف التفات کرتے ہوئے دیکھا اور نہ ہی وہ اس رات کی دوسری راتوں پر فضیلت کے قائل تھے اور جب ابن ابی ملیکہ کو بتایا گیا کہ زیاد جو ایک قصہ گو تھا وہ لوگوں سے کہتا ہے کہ اِس رات کا اجر لیلۃ القدر کے اجر کے برابر ہے تو انھوں نے کہا : اگر میں اس سے یہ بات سن لوں اور میرے ہاتھ میں ڈنڈا ہو تو میں اسے سزا دوں ۔‘‘ خلاصہ یہ ہے کہ شعبان کی پندرھویں رات کی عبادت کی فضیلت میں کچھ بھی ثابت نہیں ہے اور جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ سب جھوٹ اور من گھڑت ہے ۔ پھر ایک اور غور طلب بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی پندرھویں رات کی جو فضیلت بیان کی کہ اس میں اللہ تعالیٰ بطور خاص اپنے بندوں کی طرف دیکھتا ہے اور مشرک اور کینہ پرور کے علاوہ باقی تمام بندوں کی مغفرت کردیتا ہے تو یہ فضیلت صرف اسی رات کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ یہ تو ہر سوموار اور جمعرات کے بارے میں بھی ہے ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :(( تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ وَیَوْمَ الْخَمِیْسِ،فَیُغْفَرُ لِکُلِّ عَبْدٍ لاَ یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا إِلاَّ رَجُلاً کَانَتْ بَیْنَہُ وَبَیْنَ أَخِیْہِ شَحْنَائُ
[1] لطائف المعارف [2] الحوادث والبدع