کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 326
لہٰذا اِس رات کو ہونے والی عام بخشش کا مستحق بننے کیلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان اپنا عقیدہ درست کرے ۔ نفع ونقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھے ، مشکل کشا بھی صرف اللہ تعالیٰ کو تصور کرے ، بھروسہ اللہ پر ہی کرے، اپنی تمام تر امیدوں کا مرکز درباروں اور مزاروں کی بجائے صرف اللہ کو بنائے، خوف پیروں بزرگوں کی بجائے صرف اللہ سے ہو، نذرو نیاز اللہ کیلئے مانے اور اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو مدد کیلئے مت پکارے ۔۔۔۔۔ اِس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے متعلق اپنا دل صاف رکھے اور کسی سے حسد ، بغض اور کینہ نہ رکھے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو انسان کی نجات کیلئے انتہائی ضروری ہیں ۔ رہی بات چراغاں اور آتش بازی کرنے کی تو یہ محض فضول خرچی ہے جس سے ہمارے دین میں منع کیا گیا ہے ، اس لئے اس سے پرہیز کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے ۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت میں جو بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر بیان کی کہ اللہ تعالیٰ مشرک اور کینہ پرور کی مغفرت نہیں کرتا اور باقی سب لوگوں کی مغفرت کردیتا ہے تو آج بہت سے لوگ اِس رات کو بطورِ خاص مناتے ہیں ، شبِ برات کی نسبت سے محفلیں منعقد کی جاتی ہیں اور ان میں اِس رات کے حوالے سے جھوٹی اور من گھڑت احادیث بیان کرنے کے علاوہ نعت خوان اور مقررین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ کرتے ہیں اور آپ کو مدد کیلئے پکارتے ہیں ۔ یعنی دوسرے لفظوں میں کھلم کھلا شرک بھی کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی امید بھی رکھی جاتی ہے ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس حدیث کا عملی طور پر مذاق بھی اڑایا جاتا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا کہ اِس رات میں مشرک کی مغفرت نہیں کی جاتی اور اِس کے ساتھ ساتھ یہ امید بھی لگائی جاتی ہے کہ آج رات جہنم سے آزادی کا پروانہ مل جائے گا ! کیسی ستم ظریفی ہے کہ شرک سے مکمل طور پر براء ت اور توبہ کرنے کی بجائے اُس کا عملی مظاہرہ کیا جاتا ہے اور لوگوں کو اُس کی طرف دعوت دی جاتی ہے ! شب ِ برات مغفرت کی رات ہے تو پھر عبادت کیوں نہ کی جائے ؟ کوئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ جب آپ نے خود یہ ثابت کردیا کہ یہ رات مغفرت کی رات ہے تو پھر اِس میں خصوصی طور پر عبادت کرنے میں کیا حرج ہے ؟ ہمارا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے لئے اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر میدان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش ِ قدم پہ چلیں اور ہر عمل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں ۔ نیز یہ دیکھیں کہ کس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کونسی عبادت کی ؟ چنانچہ جب ہم احادیث اور سیرت کی کتابوں کا مطالعہ