کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 325
پورے زور شور سے ان جھوٹی احادیث کو بیان کرتے ہیں !! یہ اور اس قسم کی دیگر احادیث بالاتفاق ضعیف اور من گھڑت ہیں ۔ ائمۂ کرام مثلا شوکانی ، ابن الجوزی ، ابن حبان ، قرطبی، سیوطی وغیرھم نے ان روایات کو ناقابلِ اعتبار قرار دیا ہے۔ تفصیلات کیلئے الفوائد المجموعۃ،الموضوعات الکبری،تفسیر القرطبی، اللآلئی المصنوعۃوغیرہ دیکھی جاسکتی ہیں ۔ لہٰذا میدانِ دعوت کے کارکنوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اُن روایات کو بیان کرنے اور ان کی نشرواشاعت سے پرہیز کریں جو سندکے اعتبار سے ثابت نہ ہوں۔یقینی طور پر یہ حدیثِ نبوی کی بہت بڑی خدمت ہو گی اگر وہ کسی حدیث کو بیان کرنے سے پہلے اُس کی سند کے متعلق تحقیق کر لیں ، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ (( مَنْ یَّقُلْ عَلَیَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ )) [1] ’’جس نے میری طرف وہ بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی ‘ اُسے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لینا چاہئے۔ ‘‘ شبِ برات میں کیا کرنا چاہئے ؟ اب سوال یہ ہے کہ جو حدیث شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت میں صحیح سند کے ساتھ آئی ہے اور وہ ہے: (’’اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں را ت کو اپنی پوری مخلوق کی طرف ( بنظرِ رحمت ) دیکھتا ہے ، پھر مشرک اور کینہ پرور کے سوا باقی ساری مخلوق کی بخشش کر دیتا ہے۔ ‘‘ ) کیا اِس میں کسی محفل کے جمانے کا ذکر ہے یا کسی خاص عبادت کا ؟ یا اس حدیث میں چراغاں اور آتش بازی کرنے کا ذکر کیا گیا ہے ؟ اِس سوال کا درست جواب ہر وہ شخص دے سکتا ہے جو خرافات اور من گھڑت روایات پر اعتماد کرنے کی بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاف ستھری شریعت پر ایمان رکھتا ہو۔ چنانچہ اِس حدیث کا اگر بنظرِ انصاف مطالعہ کیا جائے تو واضح طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس میں کسی محفل کا ذکر کیا ہے نہ کسی خاص عبادت کااور نہ چراغاں کی بات کی گئی ہے نہ آتش بازی کی ، بلکہ جس چیز کا ذکرکیا گیا ہے وہ ہے اللہ تعالیٰ کی عام مغفرت جس کا مستحق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایسے شخص کو قرار دیا جس کے عقیدے میں شرک کی ملاوٹ نہ ہو اور اُس کے دل میں کسی مسلمان کے متعلق ذاتی دشمنی کی بناء پر بغض وکینہ نہ ہو ۔
[1] صحیح البخاری:109