کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 324
ہے، ان کے من گھڑت ہونے کے بارے میں کوئی سمجھ دار انسان شک نہیں کر سکتا اور اسکے راوی مجہول ہیں ۔ ‘‘ وہ مزید کہتے ہیں:(وَقَدِ اغْتَرَّ بِہَا جَمَاعَۃٌ مِنَ الْفُقَہَائِ کَصَاحِبِ الإِحْیَائِ وَغَیْرِہٖ وَکَذَا مِنَ الْمُفَسِّرِیْنَ وَقَد ْ رُوِیَتْ صَلَاۃُ ہَذِہِ اللَّیْلَۃِ أَعْنِی لَیلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ عَلیٰ أَنْحَائٍ مُخْتَلِفَۃٍ کُلُّہَا بَاطِلَۃٌ مَوضُوعَۃٌ ) [1] ’’ فقہاء اور مفسرین کی ایک جماعت مثلا صاحبِ احیاء وغیرہ کو اِس حدیث سے دھوکہ لگا ہے حالانکہ شعبان کی پندرھویں رات کی نماز کے بارے میں جو حدیث مختلف طرق سے روایت کی گئی ہے وہ اپنے تمام طرق کے ساتھ باطل اور من گھڑت ہے ۔ ‘‘ جبکہ ملا علی قاری رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ(لَمْ یَأْتِ بِہَا خَبَرٌ وَلَا أَثَرٌ إِلَّا ضَعِیْفٌ أَوْ مَوضُوعٌ،وَلَا تَغْتَرَّ بِذِکْرِ صَاحِبِ الْقُوتِ وَالإِحْیَائِ وَغَیْرِہِمَا) ’’ اس نماز کے بارے میں ضعیف یا موضوع احادیث کے علاوہ کچھ بھی وارد نہیں ۔ اس لئے آپ کو اِس بات سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کہ اسے قوت القلوب اور إحیاء علوم الدین کے مولفین وغیرہم نے ذکر کیا ہے ۔ ‘‘ نیز ملا علی قاری نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ یہ بدعت نماز پہلی مرتبہ ۴۴۸ ؁میں بیت المقدس میں ایجاد کی گئی جب بعض آگ کے پجاری لوگ اسلام میں داخل ہوئے ۔ وہ جب مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھتے تو اپنے سامنے آگ جلا لیا کرتے تھے ۔ یوں وہ مسلمانوں کو بھی راضی کر لیتے تھے اور اپنے توہمات اور باطل عقائد پر بھی عمل کرلیتے تھے اور انہی لوگوں نے ہی الصلاۃ الألفیۃکو ایجاد کیا تھا ، چنانچہ جب شعبان کی پندرھویں رات آتی تو وہ یہ نماز پڑھتے اور اپنے سامنے آگ جلا لیتے تھے۔اِس سے ان کا مقصود یہ ہوتا کہ رات کو زیادہ دیر تک وہ آگ کے سامنے تعظیما کھڑے رہیں۔اس کے علاوہ وہ لوگ اِس آگ کی آڑ میں بہت سی برائیوں کا ارتکاب بھی کرتے تھے حتی کہ اُس وقت کے اولیائے کرام کو یہ خوف ہوا کہ کہیں انھیں زمین کے اندر دھنسا نہ دیا جائے ۔اِس لئے وہ ان علاقوں سے دور چلے جاتے تھے جن میں اس بدعت پر عمل کیا جاتا تھا اور اس کی آڑ میں کئی محرمات کا ارتکاب کیا جاتا تھا۔[2] نہایت دکھ کی بات ہے کہ جو نماز آگ کے پجاریوں نے پانچویں صدی میں ایجاد کی اور اس کی فضیلت میں جھوٹی احادیث بھی گھڑ ڈالیں آج مسلمان اسی نماز کا شعبان کی پندرھویں رات کو خصوصی اہتمام کرتے ہیں اور
[1] الفوائد المجموعۃ:53/ [2] تحفۃ الأحوذی:163/3، طبعۃ دار الحدیث القاہرۃ