کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 323
ممکن ہے کہ یہ موضوع ( من گھڑت ) ہو ۔[1]
(۵) الصلاۃ الألفیۃ یعنی وہ نماز جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا کہ
’’ جو شخص اس رات میں سو رکعات نماز اِس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ الاخلاص دس بار پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر حاجت پوری کر دیتا ہے ، اگر وہ لوح محفوظ میں بد بخت لکھا گیا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے مٹا کر اسے خوش نصیب لکھ دیتا ہے …اور اس کے آئندہ ایک سال کے گناہ نہیں لکھے جاتے ۔‘‘
’’ الموضوعات ‘‘ میں ابن الجوزی اس حدیث کے مختلف طرق ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں :
’’ اس حدیث کے موضوع ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔ اِس کے زیادہ تر راوی مجہول ہیں بلکہ ان میں سے بعض تو بالکل ضعیف ہیں اور اِس طرح کی حدیث کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہونا نا ممکن ہے اور ہم نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے جو یہ نماز پڑھتے ہیں ،جب چھوٹی راتیں ہوتی ہیں تو وہ اِس کے بعد سو جاتے ہیں اور ان کی فجر کی نماز بھی فوت ہو جاتی ہے ۔ جبکہ جاہل ائمۂ مساجد نے اِس نماز کو اور اسی طرح ’’صلاۃ الرغائب‘‘ کو لوگوں کو جمع کرنے اور کسی بڑے منصب تک پہنچنے کا ذریعہ بنا لیا ہے اور قصہ گو لوگ اپنی مجالس میں اسی نماز کا تذکرہ کرتے ہیں حالانکہ یہ سب حق سے بہت دور ہیں ۔ ‘‘[2]
امام نووی کہتے ہیں کہ
’’ وہ نماز جو صلاۃ الرغائب کے نام سے معروف ہے اور جس کی بارہ رکعات رجب کی پہلی رات کو مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی جاتی ہیں ، و ہ اور اسی طرح شعبان کی پندرھویں رات کی سو رکعات نماز یہ دونوں نمازیں بہت بری بدعت ہیں ۔ لہٰذا ’قوت القلوب‘ اور ’ احیاء علوم الدین ‘ میں ان کے تذکرہ سے دھوکے میں نہیں پڑنا چاہئے اور نہ ہی ان کے بارے میں روایت کی گئی حدیث سے دھوکہ کھانا چاہئے کیونکہ وہ پوری کی پوری باطل ہے ۔‘‘[3]
اور امام شوکانی کہتے ہیں کہ(ہُوَ مَوضُوعٌ،وَفِی أَلْفَاظِہٖ الْمُصَرَّحَۃِ بِمَا یَنَالُہُ فَاعِلُہَا مِنَ الثَّوَابِ مَا لاَ یَمْتَرِیْ إِنْسَانٌ لَہُ تَمْیِیْزٌ فِی وَضْعِہٖ،وَرِجَالُہُ مَجْہُولُونَ )
’’ یہ موضوع ہے اور اس کے بعض الفاظ جن میں اِس کے پڑھنے والے کو جو ثواب ملتا ہے اسکی تصریح کی گئی
[1] تنزیہ الشریعہ لابن عراق:94/2
[2] الموضوعات:443-440/2
[3] المجموع للنووی:379/3