کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 321
بعد آپ نے فرمایا : (( أَظَنَنْتِ أَنْ یَّحِیْفَ اللّٰہُ عَلَیْکِ وَرَسُوْلُہُ )) ’’ تمھارا خیال تھاکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر ظلم کریں گے ؟ ‘‘ میں نے ( دل میں ) کہا : لوگ چاہے جتنا چھپائیں اللہ تعالیٰ تو جانتا ہے۔ ہاں واقعتا اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( فَإِنَّ جِبْرِیْلَ أَتَانِی حِیْنَ رَأَیْتِ،فَنَادَانِی فَأَخْفَاہُ مِنْکِ ، فَأَجَبْتُہُ،فَأَخْفَیْتُہُ مِنْکِ،وَلَمْ یَکُنْ یَدْخُلُ عَلَیْکِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِیَابَکِ وَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِّ فَکَرِہْتُ أَنْ أُوْقِظَکِ، وَخَشِیْتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِی،فَقَالَ:إِنَّ رَبَّکَ یَأْمُرُکَ أَنْ تَأْتِیَ أَہْلَ الْبَقِیْعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَہُمْ)) ’’ جب تم نے دیکھا تو اس وقت میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے تھے ۔ انھوں نے تم سے چھپاتے ہوئے آہستہ سے مجھے پکارا ، تو میں نے بھی تم سے چھپاتے ہوئے انھیں آہستہ سے جواب دیا اور وہ اِس حال میں اندر نہیں آ سکتے تھے کہ تم نے اپنے ( اضافی ) کپڑے اتارے ہوئے تھے۔میں نے یہ سمجھا تھا کہ تم سو گئی ہو اسلئے میں نے تمھیں جگانا پسند نہ کیا اور مجھے یہ خوف بھی تھا کہ کہیں تم میرے بغیر خوف ووحشت میں مبتلا نہ ہو جاؤ۔ جبریل علیہ السلام نے کہا:آپ کے رب کا حکم ہے کہ آپ اہلِ بقیع کے پاس آئیں اور ان کیلئے مغفرت کی دعا کریں ۔‘‘ میں (عائشہ رضی اللہ عنہا )نے کہا : میں ان کیلئے کیسے دعا کروں ؟ تو آپ نے فرمایا : تم یوں کہا کرو : (( اَلسَّلَامُ عَلٰی أَہْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ،وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِیْنَ،وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ)) [1] لہٰذا ثابت ہوا کہ قصۂ بقیع کا شعبان کی پندرھویں رات سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس کا صحیح حدیث میں ذکر ہے ۔ اس لئے ایک ضعیف حدیث کو حجت بنا کر یہ عقیدہ رکھنا درست نہیں کہ اِس رات یا اس سے اگلے روز قبرستان میں جانا مسنون ہے ۔ (۳) (( إِذَا کَانَ لَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوْا لَیْلَتَہَا وَصُوْمُوْا یَوْمَہَا ، فَإِنَّ اللّٰہَ یَنْزِلُ فِیْہَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ إِلَی سَمَائِ الدُّنْیَا فَیَقُوْلُ:أَلَا مُسْتَغْفِرٌ فَأَغْفِرَ لَہُ،أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَہُ،أَلَا مُبْتَلًی فَأُعَافِیَہُ،ألََا سَائِلٌ فَاُعْطِیَہُ،أَلا کَذَا أَلاَ کَذَا،حَتّٰی یَطْلُعَ الْفَجْرُ )) [2]
[1] صحیح مسلم:974 [2] ضعیف الجامع للألبانی:652:موضوع