کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 320
’’ بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ شعبان کی پندھوریں رات کو آسمانِ دنیا پر آتا ہے ، پھر بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت کرتا ہے ۔ ‘‘ دیگر ائمہ کے علاوہ خود امام ترمذی نے بھی اِس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے بلکہ انھوں نے امام بخاری سے بھی نقل کیا ہے کہ وہ اسے ضعیف کہتے تھے۔ واضح رہے کہ قصۂ عائشہ رضی اللہ عنہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بقیع میں جانے اور اہل ِ بقیع کیلئے دعاء کرنے کے متعلق ہے وہ صحیح ہے اور صحیح مسلم وغیرہ میں تفصیلا موجود ہے لیکن اس میں شعبان کی پندرھویں رات کا کوئی ذکر نہیں۔ وہ مکمل واقعہ کچھ یوں ہے : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میرے پاس تھے ، آپ نے جو چادر اوڑھ رکھی تھی اسے اور اپنے جوتوں کو اتارا اور انھیں اپنے سر کے قریب رکھ دیا اور جو چادر آپ نے پہن رکھی تھی اس کا ایک کونہ آپ نے اپنے بستر پر بچھایا اور اس پر لیٹ گئے ۔ ابھی کچھ ہی دیر گذری تھی جس میں آپ نے یہ سمجھا کہ میں سو گئی ہوں ، آپ نے آہستہ سے اپنی چادر کو اٹھایا ،جوتا پہنا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئے۔ پھر دروازہ آہستہ سے بند کردیا۔ میں اٹھی ، اپنی زرہ سر پر پہن لی، دوپٹہ اوڑھا اور اپنی چادر لپیٹ کر میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چل دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع میں پہنچے ، کافی دیر تک کھڑے رہے اور اِس دوران تین مرتبہ آپ نے اپنے ہاتھ (دعا کیلئے) بلند کئے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس پلٹے تو میں بھی واپس پلٹی ، آپ تیز چلے تو میں بھی تیز تیز چلنے لگی ، پھر آپ ہلکے ہلکے دوڑے تو میں بھی ہلکا ہلکا دوڑنے لگی ، پھر آپ تیز دوڑے تو میں بھی تیز دوڑنے لگی ۔ میں آپ سے پہلے گھر میں داخل ہوئی اور ابھی میں لیٹی ہی تھی کہ آپ بھی پہنچ گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ عائشہ ! تمھیں کیا ہو گیا ہے ، سانس کیوں پھولا ہوا ہے ؟ ‘‘ میں نے کہا : کچھ نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( لَتُخْبِرِیْنِیْ أَوْ لَیُخْبِرَنِّی اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ )) ’’ یا تو تم خود ہی مجھے بتا دو یا پھر مجھے وہ اللہ بتا دے گا جو بڑا باریک بین اور نہایت باخبر ہے ۔‘‘ میں نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب کچھ بتا دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اچھا وہ تمھارا سایہ تھا جو میں نے اپنے سامنے دیکھا تھا ؟ ‘‘ میں نے کہا : جی ہاں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر اپنی ہتھیلی کو اس طرح مارا کہ مجھے اس سے تکلیف محسوس ہوئی ۔ اس کے