کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 317
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمایا کرتے تھے کہ اِس مہینے میں نیک اعمال اوپر اٹھائے جاتے ہیں اور مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اوپر اٹھائے جائیں ۔
تاہم یہ درست نہیں کہ شعبان کا مہینہ اُن چار مہینوں میں شمار کیا جائے جو حرمت والے مہینے کہلاتے ہیں اور جن میں جنگ و جدل اور کشت وخون حرام ہو جاتا ہے۔ تمام مفسرین ومحدثین علماء کا اتفاق ہے کہ یہ چار مہینے ذو القعدہ، ذو الحجہ، محرم اور رجب کے مہینے ہیں ۔ شعبان کو کسی مفسر نے اِن چار مہینوں میں شمار نہیں کیا۔
اِس پورے مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عبادت کا خاص طور پر اہتمام کیا وہ ہے روزہ اور اِس کا اہتمام بھی پورے مہینے میں کیا ، کسی ایک دن کے ساتھ اِس کو خاص نہیں کیا اور نہ ہی اِس مہینے کے کسی ایک دن کے روزے کی کوئی فضیلت بیان کی ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ روزے نہیں چھوڑتے ۔ پھر روزہ چھوڑتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ روزہ نہیں رکھتے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کسی مہینے کے مکمل روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے رمضان المبارک کے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔[1]
نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ
(( کَانَ أَحَبَّ الشُّہُوْرِ إِلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم أَنْ یَّصُوْمَہُ شَعْبَانُ،ثُمَّ یَصِلُہُ بِرَمَضَانَ )) [2]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روزوں کیلئے سب سے محبوب مہینہ شعبان تھا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد رمضان کے روزے رکھتے ۔ ‘‘
اسی طرح ان کا بیان ہے کہ (( مَا رَأَیْتُ النَّبِیَّ صلي اللّٰه عليه وسلم فِیْ شَہْرٍ أَکْثَرَ صِیَامًا مِنْہُ فِیْ شَعْبَانَ،کَانَ یَصُوْمُہُ إَِّلا قَلِیْلاً،بَلْ کَانَ یَصُوْمُہُ کُلَّہُ)) [3]
’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپ اس میں روزے رکھتے تھے سوائے چند ایام کے ۔ بلکہ آپ پورے مہینے میں ہی روزے رکھتے تھے ۔‘‘
جبکہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ
[1] متفق علیہ
[2] سنن أبيٍ داؤد:2431 وصححہ الألبانی
[3] سنن الترمذی:736 وصححہ الألبانی