کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 316
’’ کیا میں شکر گذا ربندہ نہ بنوں ؟ ‘‘
اور حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا قیام فرمایا کہ آپ کے پاؤں مبارک پر ورم ہو گیا ۔ آپ سے کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کردی ہیں ، پھر بھی آپ اتنا لمبا قیام کرتے ہیں! توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( اَفَلَا أَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا)) ’’ کیا میں شکر گذا ربندہ نہ بنوں ؟ ‘‘[1]
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ کا معمول تھا کہ آپ اتنا لمبا قیام کرتے کہ پاؤں مبارک پھٹنے لگتے یا ان پر ورم ہو جاتا ، یہ نہیں کہ بس سال میں دو یا تین مرتبہ ایسا کرتے اور زندگی گذارنے کا سب سے بہتر طریقہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہی ہے ۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبۂ جمعہ میں یوں ارشاد فرماتے :
(( أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ،وَخَیْرَ الْہَدْیِ ہَدْیُ مُحَمَّدٍ صلي اللّٰه عليه وسلم ،وَشَرَّ الْأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُہَا،وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ )) [2]
’’ حمد وثناء کے بعد تم سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ بہترین بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور کاموں میں سب سے برا کام وہ ہے جو ( دین میں ) نیا ایجاد کیا جائے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ ‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہی اصل دین ہیں اور جو کام کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹ کر دین میں نیا ایجاد کیا جائے وہ سب سے برا کام ہے اگرچہ وہ لوگوں کی نظروں میں کتنا اچھا کیوں نہ ہو اور اِس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس کام کا ثبوت کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ ملتاہو وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور کوئی بدعت ایسی نہیں کہ جسے دین میں بدعت ِ حسنہ قرار دیا جائے ۔ بدعات سب کی سب گمراہی ہیں اور جو لوگ ان پر عمل کرتے ہیں انھیں گمراہ کرنے والی ہیں ۔
ماہِ شعبان کے روزوں کے فضائل
ماہِ شعبان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کو چھوڑ کر باقی سب مہینوں کی بہ نسبت زیادہ روزے رکھتے تھے اور
[1] صحیح البخاری:4836،صحیح مسلم:2819
[2] صحیح مسلم:867