کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 311
فَیَرْفُضُہُ،وَیَنَامُ عَنِ الصَّلَاۃِ الْمَکْتُوْبَۃِ[1])) یعنی ’’ رہا وہ پہلا شخص جس کا سر کچلا جا رہا تھا تو وہ وہ شخص تھا جو قرآن پڑھتا تو تھا لیکن اس پر عمل نہیں کرتا تھا اور فرض نماز سے سویا رہتا تھا ۔ ‘‘ امام ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’ مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں کہ جان بوجھ کر فرض نماز کو چھوڑنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے اور اس کا گناہ اللہ کے نزدیک قتل کرنے ، مال لوٹنے ، بد کاری اور شراب نوشی سے بھی بڑا ہے۔ اور تارکِ نماز اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ، سزا اور دنیا اور آخرت میں رسوائی کی زد میں ہے ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے تمام عمال کو لکھا کرتے تھے کہ میرے نزدیک تمہارا سب سے اہم کام نماز ہے ،کیونکہ جو شخص اس کی حفاظت کرتا رہے وہ اپنے دین کو محفوظ کر لیتا ہے ۔ اور جو اسے ضائع کردے وہ اس کے علاوہ باقی فرائضِ اسلام کو زیادہ ضائع کرنے والا ہے۔ اور وہ شخص جو نماز چھوڑ دے اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ۔ ‘‘[2] اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو دین ِ اسلام کے اس سب سے اہم فریضہ پر کاربند رہنے اور اسے ہمیشہ پابندی کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق دے۔آمین دوسرا خطبہ عزیزان گرامی !پہلے خطبہ میں آپ نے تحفۂ معراج یعنی پانچ نمازوں کی فرضیت ، اہمیت اور فضائل کے بارے میں چند گذارشات قرآن وحدیث کی روشنی میں سماعت کیں ، اسی طرح آپ نے یہ بھی سناکہ عمداً نماز چھوڑناکتنا بڑا گناہ ہے اور تارک ِ نماز کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے۔ اور جب ہم عام مسلمانوں کی حالت کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بہت سارے مسلمان یا تو اس فریضۂ دین سے بالکل غافل ہیں ۔۔۔۔۔ اور ایسے لوگ یقینا انتہائی خطرناک راہ پر چل رہے ہیں اور انھیں اس سے فوری طور پر توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہئے ۔۔۔۔ یا پھر اس سے بالکل غافل تو نہیں ، تاہم وہ اسے اپنی منشاء کے مطابق ادا کرتے ہیں ، کبھی تمام نمازیں پڑھ لیتے ہیں اور کبھی کوئی نماز پڑھ لیتے ہیں اور کوئی چھوڑ دیتے ہیں اور کبھی وقت پر پڑھتے ہیں اور کبھی بے وقت پڑھتے ہیں ، کبھی مساجد میں جا کر نماز باجماعت پڑھتے ہیں اور کبھی بغیر کسی شرعی عذر کے اپنے گھر میں ہی پڑھ
[1] صحیح البخاری:کتاب التعبیر باب تعبیر الرؤیا بعد صلاۃ الصبح:7047 [2] کتاب الصلاۃ لا بن القیم،ص22-21