کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 310
پہلے بیان کر چکے ہیں۔
اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جب میں اس پر عمل کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں ؟ تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :(( لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَإِنْ عُذِّبْتَ وَحُرِّقْتَ،أَطِعْ وَالِدَیْکَ وَإِنْ أَخْرَجَاکَ مِنْ مَّالِکَ،وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ ہُوَ لَکَ،وَ لَاتَتْرُکِ الصَّلاَۃَ مُتَعَمِّدًا،فَإِنَّ مَنْ تَرَکَ الصَّلَاۃَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ ذِمَّۃُ اللّٰہِ ۔۔۔[1]))
’’ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کبھی شرک نہ کرنا اگرچہ تمہیں عذاب دیا جائے اور تمہیں جلا دیا جائے۔ اور اپنے والدین کی فرمانبرداری کرتے رہنا اگرچہ وہ تمہیں تمہارے مال سے اور تمہاری ہر چیز سے نکال دیں ۔اورکبھی جان بوجھ کر نماز مت چھوڑناکیونکہ جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ بری الذمہ ہو جاتا ہے ۔ ‘‘
یہی تاکیدی حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور ان کے علاوہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کو بھی دیا تھا۔ فرض نماز سے سوئے رہنے والے شخص کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں جس عذاب میں مبتلا دیکھا اسے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں سنئے ۔
حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو ہماری طرف متوجہ ہو کر پوچھتے کہ آج رات تم میں سے کس نے خواب دیکھا ہے ؟ اگر کسی نے خواب دیکھا ہوتا تو وہ اسے بیان کردیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر کردیتے ۔ پھر ایک دن آیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسبِ معمول یہی سوال کیا تو ہم نے جواب دیا : نہیں ،ہم نے کوئی خواب نہیں دیکھا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے ، انھوں نے مجھے اٹھایا اور کہنے لگے : چلیں ۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ چل دیا ۔ ہم ایک آدمی کے پاس آئے جو اپنی گدی کے بل سیدھا لیٹا ہوا تھا اور ایک آدمی اس کے قریب کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں ایک پتھر تھا اوروہ اس کے ساتھ اس کے سر کو کچل رہا تھا ۔ وہ جیسے ہی پتھر اس کے سر پر مارتا پتھرلڑھک جاتا ۔ اور جب تک وہ اسے اٹھا کر واپس آتا اس کا سر پھر جڑ چکا ہوتا اور اپنی اصلی حالت میں واپس آ چکا ہوتا۔ تو یہ پھر اس کے ساتھ پہلے کی طرح کرتا ۔ میں نے ان دونوں سے کہا : سبحان اللہ ! یہ دونوں آدمی کیا ہیں ؟ انھوں نے کہا: آگے چلیں ۔ تو ہم آگے چلے گئے ۔۔۔۔ انھوں نے کہا :(( أَمَّا الرَّجُلُ الْأَوَّلُ الَّذِیْ أَتَیْتَ عَلَیْہِ یُثْلَغُ رَأْسُہُ بِالْحَجَرِ،فَإِنَّہُ الرَّجُلُ یَأْخُذُ الْقُرْآنَ
[1] رواہ الطبرانی وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب:5691