کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 309
’’ کفر اور ایمان کے درمیان فرق نماز کو چھوڑنا ہے ۔ ‘‘ حضرت ابو موسی الأشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( اَلْعَہْدُ الَّذِیْ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمُ الصَّلَاۃُ ، فَمَنْ تَرَکَہَا فَقَدْ کَفَرَ [1])) ’’ ہمارے اور ان ( کافروں)کے درمیان عہد نماز ہے ، لہٰذا جو شخص اسے چھوڑ دے اس نے یقینا کفر کیا ۔ ‘‘ امام ابو عبد اللہ المروزی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے ترکِ نماز پر سخت وعید سنائی ہے اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اس بات کی تاکید کی ہے کہ تارکِ نماز ایمان سے خارج ہو جاتا ہے ۔ نیز کفر اور ایمان کے درمیان سوائے نماز کے بندوں کے اعمال میں سے کسی عمل کو علامت کے طور پر بیان نہیں کیا گیا ۔ یعنی نماز ہی کو نشانی بنایا گیا ہے ان دونوں کے درمیان فرق کرنے کیلئے ۔ ‘‘[2] اور حضرت عبد اللہ بن شقیق العقیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (کَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلي اللّٰه عليه وسلم لَا یَرَوْنَ شَیْئًا مِنَ الْأعْمَالِ تَرْکُہُ کُفْرٌ،غَیْرَ الصَّلَاۃِ ) [3] ’’ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اعمال میں سے کسی عمل کے چھوڑنے کو کفر نہیں سمجھتے تھے ، سوائے نماز کے ۔ ‘‘ امام منذری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد آنے والے سلف صالحین کی ایک جماعت کا موقف یہ ہے کہ ایک نماز کو جان بوجھ کر چھوڑنے والا شخص ‘ یہاں تک کہ اس کا وقت چلا جائے کافر ہے ، ان میں حضرت عمر بن خطاب ، حضرت عبد اللہ بن مسعود ، حضرت عبد اللہ بن عباس ، حضرت معاذ بن جبل ، حضرت جابر بن عبد اللہ ، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہم اور ان کے علاوہ ائمۂ کرام رحمۃ اللہ علیہم میں سے احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ ، عبد اللہ بن مبارک ، نخعی ، حکم بن عتیبہ ، ایوب سختیانی ، ابو داؤد طیالسی ، ابو بکر بن ابی شیبہ اور زہیر بن حرب وغیرہم خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ [4] ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنا کفر ہے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی اسے کفر ہی تصور کرتے تھے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے چھوڑنے والے کو انتہائی سنگین عذاب کی وعید سنائی ہے جیسا کہ ہم
[1] سنن الترمذی:2621، سنن ابن ماجہ:1079 وصححہ الألبانی [2] تعظیم قدر الصلاۃ للمروزی:132/1 [3] رواہ الترمذی والحاکم وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب:565 [4] الترغیب والترہیب:386/1