کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 303
ہو، پھر جب تم نمازعشاء ادا کرتے ہو تو وہ انھیں دھو دیتی ہے ۔ پھر جب تم سو جاتے ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا ، یہاں تک کہ تم بیدار ہو جاؤ ۔ ‘‘
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ الْمُسْلِمَ یُصَلِّیْ وَخَطَایَاہُ مَرْفُوْعَۃٌ عَلٰی رَأْسِہٖ،کُلَّمَا سَجَدَ تَحَاتُّ عَنْہُ ،فَیَفْرُغُ مِنْ صَلاَتِہٖ وَقَدْ تَحَاتَتْ عَنْہُ خَطَایَاہُ)) [1]
’’ بے شک ایک مسلمان جب نماز پڑھنا شروع کرتا ہے تو اس کے گناہ اس کے سر پر بلند کردئیے جاتے ہیں ، پھر جب وہ سجدہ کرتا ہے تو ہر سجدے کے ساتھ اس کے گناہ اس سے گر تے ہیں ۔ اور جب وہ نماز سے فارغ ہوتا ہے تو اس کے تمام گناہ گر چکے ہوتے ہیں ۔ ‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! میں نے ایک ایسے گناہ کا ارتکاب کر لیا ہے جس پر حد واجب ہوتی ہے ، لہٰذا آپ مجھ پر وہ حد نافذ کریں ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کوئی پوچھ گچھ نہ کی کہ کونسے گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور کیسے کیا ہے ۔ اس کے بعد جب نماز کا وقت ہو ا تو اس نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی ، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے دوبارہ وہی بات کی ، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَلَیْسَ قَدْ صَلَّیْتَ مَعَنَا؟)) ’’ کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ؟ ‘‘ اس نے کہا : جی پڑھی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( فَإِنَّ اللّٰہَ قَدْ غَفَرَ لَکَ ذَنْبَکَ[2]))
’’ جاؤ اللہ تعالیٰ نے تمہارا گناہ معاف کردیا ہے ۔ ‘‘
4۔ نماز ‘ نمازی کیلئے دنیا وآخرت میں نور کا باعث ہوتی ہے۔جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
(( مَنْ حَافَظَ عَلَیْہَا کَانَتْ لَہُ نُوْرًا وَّبُرْہَانًا وَّنَجَاۃً یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ،وَمَنْ لَّمْ یُحَافِظْ عَلَیْہَا لَمْ یَکُنْ لَّہُ نُوْرٌ،وَلَا بُرْہَانٌ،وَلاَ نَجَاۃٌ،وَکَانَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ قَارُوْنَ وَفِرْعَوْنَ وَہَامَانَ وَأُبَیِّ
[1] رواہ الطبرانی وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب:362
[2] صحیح البخاری:6823،صحیح مسلم:2765