کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 288
کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور ان سے سب سے زیادہ ملتے جلتے تمھارے ساتھی ( یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں ۔ پھر نماز کا وقت ہوا تو میں نے انھیں نماز پڑھائی ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسراء ومعراج کے بعد جب مکہ مکرمہ کوواپس لوٹ رہے تھے تو آپ قریش کے ایک قافلے کے پاس سے بھی گذرے جس کا ایک اونٹ گم ہو گیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ کو اُس کے بارے میں اور اس کی آمد کے وقت کے متعلق آگاہ کیا تو جو کچھ آپ نے بتایا تھا ویسا ہی ثابت ہوا ۔ لیکن کفار نے پھر بھی اِس عظیم الشان واقعہ کو ماننے سے انکار کردیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : ’’ جس رات مجھے سیر کرائی گئی اُس کی صبح میں نے مکہ مکرمہ میں کی اور مجھے اِس سلسلے میں پریشانی لاحق ہوئی کہ لوگ مجھے جھٹلا دیں گے ۔ چنانچہ میں لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر غمزدہ حالت میں بیٹھ گیا ، اسی دوران اللہ کا دشمن ابو جہل میرے پاس سے گذرا ، اُس نے مجھے دیکھا تو میری طرف چلا آیا اور میرے پاس بیٹھ کر استہزاء کے انداز میں کہنے لگا : آج کوئی نئی بات ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں اس نے کہا : وہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آج رات مجھے سیر کرائی گئی ہے ۔ اس نے کہا : کہاں کی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بیت المقدس کی ۔ اس نے کہا : سیر کرکے آپ صبح سویرے ہمارے پاس بھی پہنچ گئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں تو اُس نے اِس اندیشے کے پیش ِ نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ جھٹلایا کہ جب وہ آپ کی قوم کے لوگوں کو بلا کر آپ کے پاس لے آئے تو کہیں آپ یہ بات ان کے سامنے بیان کرنے سے انکار ہی نہ کردیں۔ اس لئے اس نے کہا : آپ کا کیا خیال ہے اگر میں آپ کی قوم کو بلا لاؤں تو آپ انھیں بھی یہ قصہ بیان کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٹھیک ہے ۔ چنانچہ اُس نے بنو کعب بن لؤی کو پکارا ، جب سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اکٹھے ہو گئے تو ابو جہل نے کہا : اب آپ اپنی قوم کے لوگوں کو بھی وہی واقعہ سنائیں جو آپ نے مجھے سنایا ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آج رات مجھے سیر کرائی گئی ہے ۔ لوگوں نے کہا : کہاں کی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بیت المقدس کی ۔