کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 287
(ہٰؤُلَائِ خُطَبَائُ مِنْ أُمَّتِکَ،یَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَیَنْسَوْنَ أَنْفُسَہُمْ وَہُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتَابَ،أَفَلَا یَعْقِلُوْنَ ؟)
’’ یہ آپ کی امت کے وہ خطباء ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے اور اپنے آپ کو بھلا دیتے ہیں حالانکہ وہ کتاب اللہ کی تلاوت بھی کرتے ہیں تو کیا انھیں عقل نہیں ہے ؟‘‘[1]
یہ معجزۂ اسراء ومعراج کے وہ واقعات تھے جو صحیح اسانید کے ساتھ روایت کئے گئے ہیں ۔ہم نے انھیں جوں کا توں بیان کردیا ہے اور ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اس عظیم الشان معجزہ پر اور اس میں ذکر کی گئی تمام غیبی باتوں پر ایمان لانے اور ان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق دے ۔آمین
دوسرا خطبہ
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اوپر سے نیچے اترے تو انبیائے کرام علیہم السلام بھی آپ کے ساتھ بیت المقدس میں آئے جہاں آپ نے انھیں نماز پڑھائی جو ہو سکتا ہے کہ اُس دن کی صبح کی نماز ہو ۔۔۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس سے نکلے ، براق پر سوار ہوئے اور صبح کے اندھیرے میں ہی مکہ میں پہنچ گئے۔[2]
شاید ان کی دلیل صحیح مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ
(( وَقَدْ رَأَیْتُنِی فِی جَمَاعَۃٍ مِنَ الْأنْبِیَائِ فَإِذَا مُوسٰی قَائِمٌ یُّصَلِّی،فإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ کَأَنَّہُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْئَ ۃِ وَإِذَا عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ قَائِمٌ یُّصَلِّی، أَقْرَبُ النَّاسِ بِہٖ شَبَہًا عُرْوَۃُ بْنُ مَسْعُوْدٍ الثَّقَفِی،وَإِذَا إِبْرَاہِیْمُ قَائِمٌ یُّصَلِّی، أَشْبَہُ النَّاسِ بِہٖ صَاحِبُکُمْ (یَعْنِی نَفْسَہُ ) فَحَانَتِ الصَّلَاۃُ،فَأَمَمْتُہُمْ [3]))
’’ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں انبیائے کرام علیہم السلام کی جماعت میں ہوں ۔ میں نے اچانک دیکھا کہ موسی علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔ ( میں نے انھیں بغور دیکھا تو ) وہ دبلے پتلے اور گھنگریالے بالوں والے تھے ، جیسا کہ وہ شنوء ۃ قبیلہ کے لوگوں میں سے ہوں ۔ میں نے پھر دیکھا تو وہاں عیسی علیہ السلام بھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور ان سے سب سے زیادہ ملتے جلتے عروہ بن مسعود الثقفی ہیں۔ پھر دیکھا تو وہاں ابراہیم علیہ السلام بھی
[1] الألبانی:أخرجہ أحمد والبغوی،وقا ل البغوی:حدیث حسن وہو کما قال أو أعلی
[2] تفسیر ابن کثیر:32/3
[3] صحیح مسلم:172