کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 283
کردی ہیں ۔ انھوں نے کہا: آپ کی امت اس کی بھی طاقت نہیںرکھتی ، لہٰذا آپ واپس جائیں اور مزید تخفیف کا سوال کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : میں بار بار اپنے رب اور موسی علیہ السلام کے درمیان آتا جاتا رہا اور اللہ تعالیٰ ہر مرتبہ پانچ پانچ نمازیں کم کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے کہا:(یَا مُحَمَّدُ،إِنَّہُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ،لِکُلِّ صَلَاۃٍ عَشْرٌ،فَذَلِکَ خَمْسُوْنَ صَلَاۃً) [1] ’’ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! اب ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں ہی ہیں اور ہر نماز دس نمازوں کے برابر ہے ۔ سو یہ ( گنتی میں پانچ ہیں لیکن اجر وثواب کے اعتبار سے ) پچاس نمازیں ہیں ۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے دس دس ‘ اور آخری مرتبہ پانچ نمازیں کم کیں اور جب پانچ نمازیں باقی رہ گئیں تو حضرت موسی علیہ السلام نے پھر بھی یہی کہا کہ آپ واپس جائیں اور مزید تخفیف کا سوال کریں ، لیکن میں نے کہا : اب تو مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہے ۔ میں اسی پر راضی ہوں اور سر تسلیم خم کرتا ہوں ۔ چنانچہ ایک منادی نے پکار کر کہا : میں نے اپنا فریضہ جاری کر دیا ہے اور اپنے بندوں سے تخفیف کر دی ہے اور میں ایک نیکی کے بدلے میں اس جیسی دس نیکیاں دیتا ہوں ۔‘‘[2] برادرانِ اسلام! دن اور رات میں پانچ نمازیں تحفۂ معراج ہیں ۔ اور اس پورے معجزے سے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل ثابت ہوتے ہیں وہاں اس سے ان نمازوں کی اہمیت وفرضیت بھی ثابت ہوتی ہے ۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اہلِ ایمان کو بار بار تاکید کی ہے کہ وہ نمازیں پابندی کے ساتھ ادا کرتے رہیں ۔ اور نمازیں ضائع کرنے یا ان میں سستی کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ذکر کیا ہے ۔ ( نسأل اللّٰه العفو والعافیۃ ) اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘ جن پر باقی سارے احکام کی فرضیت زمین پر نازل ہوئی جبکہ نمازیں آپ پر آپ کو آسمانوں سے اوپر بلا کر فرض کی گئیں ‘ آپ خود بھی ساری زندگی پابندی کے ساتھ ان نمازوں کو ادا کرتے رہے اور آپ نے اپنی امت کو بھی اسی بات کی آخری وصیت فرمائی کہ ( اَلصَّلَاۃَ وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ)’’ نماز کی پابندی کرنا اور اپنے ما تحت لوگوں کے حقوق ادا کرتے رہنا ۔‘‘ لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ جہاں قصۂ معراج سے اپنے ایمان کو ترو تازہ کرے وہاں اِس تحفۂ معراج کی اہمیت وفرضیت کا بھی اپنے دل کی گہرائیوں سے اعتراف کرے اور عملی طور پر اسے ہمیشہ پابندی کے ساتھ ادا کرتا رہے کیونکہ اس میں آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کی راحت ہے اور یہ باری تعالیٰ سے مناجات کا بڑا ذریعہ
[1] صحیح مسلم:162 [2] صحیح البخاری:3207