کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 278
’’ میں جنت کی سیر کر رہا تھا کہ اسی دوران میں ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کناروں پر عمدہ موتیوں کے قبے تھے ، میں نے کہا : جبریل ! یہ کیا ہے ؟ تو انھوں نے کہا : یہ وہ نہر کوثر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : میں نے اس میں اپنا ہاتھ مارا تو اس کی مٹی کستوری تھی ۔ ‘‘ قلم چلنے کی آواز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: (( ثُمَّ عُرِجَ بِی حَتّٰی ظَہَرْتُ لِمُسْتَوَی أَسْمَعُ فِیْہِ صَرِیْفَ الْأَقْلَامِ)) [1] ’’ پھر مجھے اور اوپر لے جایا گیا یہاں تک کہ میں اُس مقام پر پہنچ گیا جہاں میں نے قلموں کے چلنے کی آواز سنی ۔‘‘ یعنی جہاں فرشتے اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور اس کے احکامات لکھ رہے تھے مجھے وہاں تک لے جایا گیا ۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات اللہ رب العزت کو دیکھا تھا ؟ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں:(وَاتَّفَقَتِ الْأُمَّۃُ عَلٰی أنَّہُ لَا یَرَاہُ أَحَدٌ فِی الدُّنْیَا بِعَیْنِہٖ ،وَلَمْ یَتَنَازَعُوْا فِی ذَلِکَ إِلَّا فِی نَبِیِّنَا صلي اللّٰه عليه وسلم خَاصَّۃً، مِنْہُمْ مَّنْ نَفٰی رُؤْیَتَہُ بِالْعَیْنِ ، وَمِنْہُمْ مَّنْ أَثْبَتَہَا لَہُ صلي اللّٰه عليه وسلم ) [2] ’’ امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دنیا میں اپنی آنکھوں سے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور اس بارے میں ان کے مابین کوئی اختلاف نہیں ، ہاں صرف ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے ، چنانچہ ان میں سے کچھ لوگ اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو اور کچھ اس کااثبات کرتے ہیں ۔‘‘ پھر انھوں نے قاضی عیاض کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ اس مسئلہ میں خود صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین بھی اختلاف تھا ، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نفی ِ رؤیت کے قائل تھے جبکہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اثبات ِ رؤیت کے قائل تھے ۔ اور بقول قاضی عیاض اثبات ِ رؤیت کی کوئی قطعی دلیل نہیں ہے سوائے سورۃ النجم کی دو آیات کے ۔ اور ان کی تفسیر میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے ۔
[1] صحیحالبخاری:349، صحیح مسلم :163 [2] شرح العقیدۃ الطحاویۃ ص 196