کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 277
’’ میں نے جبریل علیہ السلام کو سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھا جن پر چھ سو پر تھے ۔‘‘ اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس آیت کریمہ {وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً أُخْرَی} کی یہی تفسیر کی ہے کہ اس سے مراد رؤیت ِ جبریل امین علیہ السلام ہے۔[1] جبکہ پہلی مرتبہ بعثت کے ابتدائی دور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ان کی اصل شکل میں دیکھا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی، فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنٰی} ’’پھر نزدیک ہوا اور اتر آیا، پس وہ دو کمانوں کے بقدر فاصلہ پر رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم ۔‘‘ ان آیات کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کو دیکھا جب ان پر چھ سو پر تھے ۔[2] ان آیات کی تفسیر جب ایک صحابی سے صحیحین میں ثابت ہے تو یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ دو کمانوں کے بقدر یہ فاصلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے درمیان رہ گیا تھا ۔ جنت کی سیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : (( ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّۃَ فَإِذَا فِیْہَا جَنَابِذُ اللُّؤْلُؤ وَإِذَا تُرَابُہَا الْمِسْکُ[3])) ’’ پھر مجھے جنت میں داخل کیا گیا ، ( میں نے دیکھا کہ ) اس میں انتہائی عمدہ موتیوں کے قبے ہیں اور اس کی مٹی کستوری ہے ۔ ‘‘ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( بَیْنَا أَنَا أَسِیْرُ فِی الْجَنَّۃِ أَتَیْتُ عَلٰی نَہْرٍ حَافَتَاہُ قُبَابُ اللُّؤْلُؤ ، فَقُلْتُ : مَا ہَذَا یَا جِبْرِیْلُ ؟قَالَ: ہَذَا الْکَوْثَرُ الَّذِیْ أَعْطَاکَ رَبُّکَ عَزَّ وَجَلَّ،قَالَ : فَضَرَبْتُ بِیَدِیْ فِیْہِ فَإِذَا طِیْنُہُ الْمِسْکُ)) [4]
[1] صحیح مسلم:175 ،176 [2] صحیح البخاری:3232،صحیح مسلم :174 [3] صحیح البخاری:349،صحیح مسلم:163 [4] صحیح البخاری:6581وأحمد واللفظ لہ