کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 270
’’ ثواب کی نیت سے صرف تین مساجد کی طرف سفر کیا جا سکتا ہے ، اور وہ ہیں : مسجد الحرام ، مسجد اقصی اور میری یہ مسجد ۔ ‘‘
اور یہ وہ مسجد ہے جس کا ارد گرد بھی اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق با برکت ہے { اَلَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ}تو اس کی اپنی برکت کا کیا کہنا !
اور یہی وہ مسجد ہے جو مسلمانوں کا قبلۂ اول رہی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہجرت مدینہ کے سولہ یا سترہ ماہ بعد تک اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے ۔۔۔۔۔۔ سو یہ مسجد انتہائی عظمت والی ہے ، لیکن افسوس صد افسوس کہ آج یہ مسجد یہودیوں کے قبضے میں ہے جو ہر آئے دن اس کی حرمت کو پامال کرتے رہتے ہیں۔ اور خود مسلمانانِ بیت المقدس اور اہلِ فلسطین کو بھی اس مسجد میں نماز اداکرنے کیلئے کئی پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ مختلف قیود وحدود سے گزرنے اور نا پاک یہودیوں کی خود ساختہ شرائط کو پورا کرنے کے بعد ہی انھیں مسجد اقصی کی دہلیز کو عبور کرنے کا موقع ملتا ہے۔ چہ جائیکہ کسی دوسرے اسلامی ملک کے باشندگان اس میں نماز ادا کرنے کا تصور کریں ۔۔۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ اس مسجد کو ظالم اور غاصب یہودیوں کے قبضے سے آزاد فرمائے اور ہمیں بھی اس میں نماز ادا کرنے کا موقع دے ۔ آمین
دوسری بات یہ ہے کہ مسجد اقصی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں انبیاء ورسل علیہم السلام کا نماز پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء ورسل علیہم السلام سے افضل ہیں ، تبھی تو ان کی موجودگی میں کوئی اور نہیں بلکہ وہی امام بنے ۔
اور اس میں اس بات کی دلیل بھی ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا دین ایک ہے اور وہ ہے دین ِ اسلام۔ اوریہی دین اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَمَن یَّبْتَغِ غَیْْرَ الإِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَن یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ }[1]
’’ جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہو گا۔ ‘‘
نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد وہی امام اعظم ہیں اور انہی کی شریعت واجب الاتباع ہے۔ اور ان پر نازل کی گئی کتاب ہی منبعِ ہدایت ہے ۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر کسی اور کتاب مثلا تورات وانجیل کو منبعِ ہدایت تصور کرنا گمراہی ہے۔
[1] آل عمران3 :85