کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 269
’’ پھر میرے پاس ایک سفید رنگ کا جانور لایا گیا جسے براق کہا جاتا ہے ، یہ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھااور اس کا ایک قدم اس کی حدِ نگاہ تک جاتا تھا ، مجھے اس پر بٹھایا گیا ۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اسراء کی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ’’ براق ‘‘ کو اس حالت میں لایا گیا کہ اسے نکیل ڈالی گئی تھی اور اس پر زین کسی ہوئی تھی ، اس نے کچھ شوخی دکھائی تو حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا : کیا تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شوخی دکھاتے ہو حالانکہ اللہ کے نزدیک ان سے زیادہ معزز سوار تمھارے لئے کوئی نہیں۔ اس نے جب یہ بات سنی تو اس کے پسینے چھوٹ گئے۔[1]
بیت المقدس میں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
(( فَرَکِبْتُہُ حَتّٰی أَتَیْتُ بَیْتَ الْمَقْدِسِ،قَالَ : فَرَبَطْتُہُ بِالْحَلْقَۃِ الَّتِی یَرْبِطُ بِہِ الْأنْبِیَائُ ، ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَصَلَّیْتُ فِیْہِ رَکْعَتَیْنِ [2]))
’’ پھر میں براق پر سوار ہوا یہاں تک کہ بیت المقدس میں پہنچ گیا ۔ (چنانچہ میں نیچے اترا اور) اپنی سواری کو اس جگہ پر باندھا جہاں دیگر انبیاء علیہم السلام باندھا کرتے تھے ، پھر میں مسجد کے اندر چلا گیا اور اس میں دو رکعت نماز اداکی۔ ‘‘
ابن جریر کی روایت میں ‘ جسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے ‘ یہ الفاظ ہیں کہ ’’ میں نے انبیاء ورسل علیہم السلام کو نماز پڑھائی۔‘‘ [3] یہاں دوو تین باتیں انتہائی توجہ کے قابل ہیں :
پہلی یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصی میں لایا گیا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی جو اس بات کی دلیل ہے کہ مسجد اقصی فضیلت والی مسجد ہے جس میں نماز پڑھنے کی نیت سے اس کی طرف باقاعدہ سفر بھی کیا جا سکتا ہے ، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلٰی ثَلَاثَۃِ مَسَاجِدَ:اَلْمَسْجِدِ الْحَرَامِ،وَالْمَسْجِدِ الْأقْصٰی، وَمَسْجِدِیْ ہَذَا)) [4]
[1] سنن الترمذی:3131وصححہ الألبانی
[2] صحیح مسلم :162
[3] الإسراء والمعراج:14
[4] صحیح البخاری:1188،صحیح مسلم:1397