کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 268
بیان نہیں کی گئیں ۔ اور پھر ان میں صحیح روایات بھی ہیں اور ضعیف اور ناقابل اعتبار بھی۔ لہٰذا ہم کوشش کریں گے کہ صحیح روایات کی روشنی میں اس معجزہ کی تفصیلات ذکر کریں ۔ واللّٰه ولي التوفیق
شق صدر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
’’ میں مکہ مکرمہ میں اپنے گھر میں سویا ہوا تھا۔ ( ایک روایت ‘ جسے حافظ ابن حجر نے بحوالہ طبرانی ذکر کیا ہے ‘ اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس رات کو حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے۔ ان کے گھر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا گھر کیوں کہا ؟ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس میں رہائش پذیر تھے ) گھر کی چھت کو کھولا گیا ۔ حضرت جبریل علیہ السلام نازل ہوئے ، مجھے خانہ کعبہ کے پاس حطیم میں لے آئے ( جہاں میں نے کچھ دیر آرام کیا ۔) مجھ پر اونگھ طاری تھی ، نہ میں مکمل طور پر سویا ہوا تھا اور نہ اچھی طرح بیدار تھا ، اسی حالت میں ایک کہنے والے نے کہا : تین میں سے ایک‘ جو دو آدمیوں ( حمزہ اور جعفر ) کے درمیان ہے ( یہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔) پھر مجھے اٹھا کر ( زمزم کی جانب ) لے جایا گیا ، وہاں سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے بھرا ہوا تھا، پھر میرا سینہ زیرِ ناف بالوں تک چیرا گیا اور میرا دل نکال کر اسے زمزم کے پانی کے ساتھ دھویا گیا ، پھر اسے ایمان وحکمت سے بھر کر اس کی اصلی جگہ پر لوٹا دیا گیا ، بعد ازاں میرا سینہ بند کردیا گیا ۔‘‘[1]
شقِ صدر کا یہ واقعہ صحیح ترین روایات میں موجود ہے۔ اس لئے اس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اور یہ پہلی مرتبہ نہ تھابلکہ اس سے پہلے بھی کم از کم دو مرتبہ ایسا ہو چکا تھا ۔ پہلی مرتبہ بچپن میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حلیمہ سعدیہ کے گھر میں زیرِ پرورش تھے اور دوسری مرتبہ بعثت کے وقت ۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ذکرکیا ہے ۔ اور شاید اس میں حکمت یہ تھی کہ آپ کو بعد میں پیش آنے والے بڑے بڑے واقعات کیلئے تیار کیا جائے ۔ واللہ اعلم
ابتدائے اسراء
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
(( ثُمَّ أُتِیْتُ بِدَابَّۃٍ أَبْیَضَ یُقَالُ لَہُ الْبُرَاقُ،فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُوْنَ الْبَغْلِ،یَقَعُ خَطْوُہُ عِنْدَ أَقْصٰی طَرْفِہٖ ، فَحُمِلْتُ عَلَیْہِ )) [2]
[1] صحیح البخاری :349،3207، 3887،صحیح مسلم:164
[2] صحیح مسلم:164